جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

دلالى لينے كا حكم

سوال

دلالى كا حكم كيا ہے؟ اور كيا دلال كا حاصل كردہ مال حلال ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بائع اور خريدار كے مابين رابطہ كروانے كو دلالى كہتے ہيں، اور دلال وہ شخص ہے جو بائع اور مشترى كے مابين سودا كرواتا ہے، اور دلال كہتے ہيں، كيونكہ وہ خريدارى كو سامان اور بائع كو قيمتوں كى راہنمائى كرتا ہے. انتھى

ماخوز از: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 10 / 151 ).

بہت سے لوگوں كى دلالى كى ضرورت ہوتى ہے، بہت سے لوگ ايسے ہيں جو خريدو فروخت ميں بھاؤ كرنا نہيں جانتے، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو خريدى جانے والى چيز كى پہچان نہيں كر سكتے اور اس كے عيوب نہيں جانتے، اور كچھ ايسے بھى ہوتے ہيں جن كے پاس خريدوفروخت كا وقت نہيں ہوتا.

تو اس طرح دلالى كا كام ايك مفيد اور نفع مند كام ہے، جس سے بائع اور مشترى اور دلال سب فائدہ حاصل كرتے ہيں.

دلال كے ليے ضرورى ہے كہ جس چيز ميں وہ خريدار اور بائع كے مابين واسطہ بن رہا ہے اسے اس كا تجربہ اور علم ہو، تا كہ ان دونوں ميں سے كسى ايك كو بھي نقصان نہ ہو، كيونكہ اس كا دعوى ہوتا ہے كہ وہ اسے جانتا ہے حالانكہ وہ ايسا نہيں.

اور دلال كو صادق اور امين بھى ہونا چاہيے، كسى ايك كے حساب پر وہ دونوں ميں سے كسى ايك كى فيور نہ كرے، بلكہ اسے صدق اور امانت كے ساتھ چيز كے عيب اور اس كى خصوصيات بيان كرنے چاہيں، اور بائع يا مشترى كو دھوكہ نہ دے.

بہت سے علماء كرام نے دلالى كا جواز بيان كيا ہے، اور اس كى اجرت لينى بھى جائز كہى ہے.

امام مالك رحمہ اللہ تعالى سے دلال كى اجرت كے بارہ ميں سوال كيا گيا تو انہوں نے جواب ديا:

اس ميں كوئى حرج نہيں.

ديكھيں: المدونۃ ( 3 / 466 ).

اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى اپنى صحيح بخارى ميں كہتے ہيں:

دلالى كے بارہ ميں باب : ابن سيرين اور عطاء اور ابراہيم اور حسن رحمہم اللہ دلال كى اجرت ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے تھے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى كہتے ہيں:

ايسا كہنے ميں كوئى حرج نہيں: يہ كپڑا فروخت كرو، تو اتنى اتنى رقم سے زيادہ رقم آپ كى .

اور ابن سيرين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب كوئى يہ كہے كہ: اسے اتنے ميں فروخت كريں، اور جو نفع ہو وہ آپ كا، يا نفع ميرے اور تيرے مابين، تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان اپنى شروط پر ( قائم رہتے ) ہيں"

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كى كلام ختم ہوئى.

اور ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:

دلال كو كپڑا خريدنے كے ليے اجرت پر لينا جائز ہے، ابن سيرين، عطاء، اور امام نخعى رحمہم اللہ نے اس كى اجازت دى ہے، اور معلوم مدت پر بھى جائز ہے: مثلا خريدارى كے ليے دس دنوں پر اسے اجرت پر ليا جائے، كيونكہ مدت معلوم ہے، اور كام بھى معلوم..... اور اگر وقت كے بغير صرف كام كى تعيين كى گئى ہو اور ہر ہزار درہم پر اسے كچھ معلوم تناسب سے رقم مقرر كى جائے تو يہ بھى صحيح ہے....

اور اگر دلال كو كوئى معين اور محدود كپڑا خريدنے كے ليے اجرت پر ليا جائے تو بھى صحيح ہے، امام شافعى رحمہ اللہ نے اسے صحيح كہا ہے، كيونكہ يہ مباح اور جائز كام ہے، جس ميں نيابت كرنى جائز ہے، اور معلوم بھى ہے، لھذا كپڑے كى خريدارى كى طرح اس ميں بھى اجرت پر لينا جائز ہے. انتھى

اختصار كے ساتھ: ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 8 / 42 ).

مستقل فتوى كميٹى سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو ايك تجارتى دفتر كا مالك ہے، اور كچھ كمپنيوں كى اشياء كى ماركيٹنگ ميں اس طرح كام كرتا ہے كہ كمپنى اشياء كا سينپل اسے ديتى ہے اور وہ يہ اشياء ماركيٹ ميں تاجروں كو پيش كر كے كمپنى كے ريٹ پر فروخت كرتا ہے، اور اس كے بدلے ميں كمپنى اسے كميشن ديتى ہے، تو كيا وہ ايسا كام كرنے ميں گنہگار تو نہيں؟

كميٹى كا جواب تھا:

اگر تو ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں ذكر كيا گيا ہے تو آپ كے ليے يہ كميشن لينا جائز ہے، اور آپ پر كوئى گناہ نہيں. انتھى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 125 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كسى كرايہ دار كے ليے كوئى دوكان يا فليٹ تلاش كرنا، اور اس كے بدلے ميں اجرت لينے كا حكم كيا ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اس ميں كوئى حرج نہيں، يہ اجرت ہے اور اسے كوشش كا نام ديا جاتا ہے، آپ كو چاہيے كہ آپ اس شخص كے ليے كوئى مناسب سى جگہ تلاش كرنے ميں جدوجھد كريں تا كہ وہ اسے كرايہ پر حاصل كر سكے، جب آپ اس ميں اس كا تعاون كرتے ہوئے اسے كوئى مناسب جگہ تلاش كر ديں، اور مالك كے ساتھ كرايہ پر اتفاق كرنے ميں اس كا تعاون كريں تو ان شاء اللہ ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن شرط يہ ہے كہ: اس ميں كوئى خيانت اور دھوكہ نہيں ہونا چاہيے بلكہ امانت اور صدق و سچائى ہو، جب آپ سچائى اختيار كريں گے اور مطلوبہ چيز كو تلاش كرنے ميں دونوں كے ساتھ بغير كسى دھوكہ اور ظلم و زيادتى كے امانت سے كام ليں گے تو آپ اس ميں ان شاء اللہ خير و بھلائى پر ہيں. انتھى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 19 / 358 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب