بدھ 17 جمادی ثانیہ 1446 - 18 دسمبر 2024
اردو

عذاب قبر سے بچاؤ کے کون سے ذرائع ہیں؟

457265

تاریخ اشاعت : 09-11-2024

مشاہدات : 926

سوال

عذاب قبر اور آخرت کے عذاب سے بچاؤ کے کون کون سے اسباب ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عذاب قبر ہو یا آخرت کا عذاب دونوں کی وجہ گناہ اور نافرمانی ہیں، اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (45325) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔

اس لیے ان سے نجات کے عمومی اسباب میں سے چند درج ذیل ہیں:

پہلا سبب: ہمیشگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرنا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کتاب و سنت کی نصوص واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ گناہوں کی سزا انسان سے تقریباً دس اسباب کے ذریعے زائل ہو سکتی ہے:

  • توبہ کرنا، اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔۔۔۔
  • استغفار کرنا، جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب کوئی انسان گناہ کرے اور کہے: یا رب! مجھ سے گناہ ہو گیا ہے لہذا تو مجھے معاف فرما دے۔ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے کو علم ہے کہ اس کا ایک ہی رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی فرماتا ہے، میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا۔۔۔) اسی طرح صحیح مسلم میں مرفوعا منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر تم گناہ نہ کرو، تو اللہ تعالی تم سب کو ختم کر دے اور ایسی قوم کو لے آئے جو گناہ کریں گے پھر بخشش طلب کریں گے، تو انہیں معاف کر دیا جائے گا) ۔۔۔” ختم شد
    “مجموع الفتاوى” (7/ 487 – 488)

یہی چیز اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے کہ:
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى
ترجمہ: اور یقیناً میں بخشنے والا ہوں توبہ کرنے والوں کو، اور ایمان لانے والوں کو اور عمل صالح کر کے ہدایت پر گامزن رہنے والوں کو۔[طہ: 82]

دوسرا سبب: کثرت سے نیکیاں بجا لانا؛ کیونکہ نیکیاں کرنے سے گناہ مٹ جاتے ہیں۔

فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ
ترجمہ: دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے حصوں میں نماز قائم کر؛ یقیناً نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔ [ھود: 114]

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم جہاں بھی رہو تقوی الہی اپناؤ، گناہ ہو جائے تو اس کے بعد نیکی کرو، یہ گناہ کو مٹا دے گی ، اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1987) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ۔

تیسرا سبب: خَلق الہی کے ساتھ زبانی، عملی اور مالی بھلائی کریں؛ کیونکہ انسان کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسا عمل کرے گا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے) مسلم: (2699)

انہی نیک کاموں میں بد سلوکی کرنے والوں کو معاف کرنا بھی شامل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ترجمہ: اور تم میں سے آسودہ حال لوگوں کو یہ قسم نہ کھانی چاہیے کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ (صدقہ وغیرہ) نہ دیں گے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ان کو معاف کر دیں اور ان سے درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [النور: 22]

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی کا فرمان :  أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ کا مطلب یہ ہے کہ: چونکہ جیسا عمل ہو گا اس کا بدلہ بھی ویسا ہی ملے گا، تو جس طرح ہم آپ کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کو معاف کرنے والے ہیں اسی طرح ہم آپ کو بھی معاف کریں گے، اور جس طرح آپ درگزر کریں گے اسی طرح ہم آپ سے بھی درگزر کریں گے۔” ختم شد
تفسیر ابن کثیر: (6 /31)

تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرنا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک تاجر لوگوں کو ادھار مال دیتا تھا، تو جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے کارندوں سے کہتا: اس کا کھاتہ صاف کر دو، شاید کہ اللہ تعالی ہمیں معاف فرما دے، تو اللہ تعالی نے اسے بھی معاف فرما دیا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2078) اور مسلم : (1562) نے روایت کیا ہے۔

چوتھا سبب:

عذاب قبر اور جہنم کے عذاب سے تحفظ کا باعث بننے والی دعاؤں کا تسلسل کے ساتھ اہتمام

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: ایک یہودی خاتون ان کے پاس آئیں اور آپ کے سامنے عذاب قبر کا تذکرہ کرنے لگی، تو اس نے باتوں میں یہ بھی کہا: اللہ تعالی تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عذاب قبر کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: (ہاں، عذابِ قبر ہوتا ہے۔) تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے دیکھا۔ اس حدیث کو امام بخاری: (1372) اور مسلم : (586) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی نماز میں تشہد پڑھے تو اللہ تعالی سے چار چیزوں کی پناہ مانگے اور کہے: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ ترجمہ: یا اللہ! میں جہنم کے عذاب ، عذاب قبر، زندگی اور موت کے فتنے، اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔)اس حدیث کو امام بخاری: (1377) اور مسلم : (588) نے روایت کیا ہے۔

دوم:

کچھ ایسے اعمال بھی ہیں جو انسان کو قبر میں اللہ تعالی کے عذاب سے بچائیں گے، ان میں سے چند یہ ہیں:
پہلا عمل: سورت ملک کی تلاوت، اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (26240) میں گزر چکی ہیں۔

دوسرا عمل: اللہ کی راہ میں پہرہ دینا، اسلامی حدود کی حفاظت کے لیے چوکیداری کرنا۔

صحیح مسلم: (1913) میں سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (ایک دن اور رات کی چوکیداری ایک ماہ کے قیام اور صیام سے بہتر ہے، اگر کوئی مسلمان چوکیداری کے دوران فوت ہو جائے تو اس کے اعمال ویسے ہی جاری رہیں گے جیسے وہ زندگی میں کرتا رہا ہے، اس کا رزق بھی جاری رہے گا اور فتنے سے بھی محفوظ رہے گا۔)

ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

” حدیث مبارکہ کے عربی متن: { وَأَمِنَ الْفَتَّانَ }یعنی فتنے سے بھی محفوظ رہے گا، سے مراد قبر میں فرشتوں کی جانب سے کیے جانے والے سوالات ہیں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک اور حدیث میں فرمان ہے کہ: (تمہیں تمہاری قبروں میں فتنے میں ڈالا جائے گا) [تو معلوم ہوا کہ قبر میں فتنے سے مراد سوالات ہوئے۔ مترجم] ” ختم شد
“كشف المشكل” (4/36)

اس چیز کی وضاحت ترمذی: (1665) میں جناب محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ: “سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ شرحبیل بن سمط کے پاس سے گزرے ،وہ سرحد پر پہرے کے لیے مامور تھے ، ان پر اور ان کے ساتھیوں پر وہاں رہنا گراں گزر رہا تھا، سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن سمط ! کیا میں تم سے وہ حدیث بیان نہ کروں جسے میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، تو سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (اللہ کی راہ میں ایک دن کی پاسبانی ایک ما ہ کے صیام اور قیام سے افضل ہے ، -راوی کہتے ہیں آپ نے افضل کی جگہ خیر کا لفظ استعمال کیا- اور جو شخص اسی حالت میں وفات پا گیا تو وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا اور قیامت تک اس کا عمل مسلسل درج کیا جاتا رہے گا۔” امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔” ختم شد

تیسرا عمل: اللہ کی راہ میں شہادت پانا۔

سنن ترمذی: (1663) میں ہے کہ: سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ کے نزدیک شہید کے لیے چھ انعامات ہیں،(۱) خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، (۲) وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے،(۳) عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے ،(۴) فزع اکبر (عظیم گھبراہٹ والے دن)سے پر امن رہے گا ،(۵) اس کے سرپر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ،(۶) اس کی بہتر (۷۲) جنتی حوروں سے شادی کی جائے گی، اور اس کے ستر رشتہ داروں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
امام ترمذی نے کہا کہ : یہ حدیث صحیح اور غریب ہے۔

امام نسائی : (2053) نے ایک روایت بیان کی ہے کہ راشد بن سعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ اہل ایمان کا ان کی قبروں میں امتحان لیا جاتا ہے مگر شہید کا نہیں؟ آپ نے فرمایا: (میدان جہاد میں اس کے سر پر چمکتی تلواریں اس کے امتحان کے لیے کافی ہو گئیں۔)

چوتھا عمل:

پیٹ کی بیماری سے فوت ہونے والا

جامع ترمذی: (1064) میں ابو اسحاق سبیعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کو کہا یا خالد نے سلیمان سے کہا کہ: کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ: (جسے پیٹ کی بیماری قتل کر دے تو اسے قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا۔) تو دونوں میں سے مخاطب نے کہا: ہاں میں نے سنا ہے۔

امام ترمذی نے اسے روایت کر کے کہا کہ: “اس مسئلے میں یہ حدیث حسن اور غریب ہے۔” ختم شد

پانچواں عمل:

پابندی کے ساتھ روزے رکھنا۔

صحیح بخاری: (1894) میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (روزہ ڈھال ہے، اس لیے روزے دار بیہودہ بات نہ کرے اور نہ ہی جہالت پر مبنی بات کرے، اور اگر کوئی شخص اس سے دست درازی یا زبان درازی کرے تو وہ دو بار کہہ دے: میرا روزہ ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ معتبر ہے ۔[اللہ تعالی فرماتا ہے:] روزے دار میری وجہ سے اپنا کھانا، پینا اور شہوت چھوڑے رکھتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور نیکی کا بدلہ دس گناہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں (29/436) میں مطرف سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں عثمان بن ابو العاص کے پاس گیا تو انہوں نے میرے لیے بکری کا دودھ لانے کا حکم دیا، تو میں نے بتلایا کہ : میرا روزہ ہے۔ اس پر عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوا سنا ہے کہ: (روزہ اللہ کے عذاب سے اسی طرح ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی کی لڑائی میں بچاؤ کے لیے ڈھال ہوتی ہے۔ اور ہر مہینے میں تین روزے رکھنا بہترین روزے ہیں) مسند احمد کے محققین کے مطابق: اس حدیث کی سند صحیح مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔

چھٹا عمل:

اہل ایمان کا کسی کے لیے بخشش طلب کرنا۔

سنن ابو داود: (3221) میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت میت کو دفن کر کے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہو کر فرماتے: (تم اپنے بھائی کے لیے بخشش طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی مانگو؛ کیونکہ اس سے اب سوال کیا جا رہا ہے۔)

اس حدیث مبارکہ میں رہنمائی ہے کہ زندہ لوگوں کے استغفار کرنے سے میت کو فائدہ ہوتا ہے۔

اس لیے مسلمان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اچھے دوست بنائے، اپنی اولاد کو معاشرے کا اچھے سے اچھا فرد بنائے تا کہ اولاد کی دعاؤں اور استغفار سے مرنے کے بعد فائدہ ہو۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور قبر کے عذاب سے بھی بچائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب