الحمد للہ.
سب گھر والوں كى جانب سے چاہے ان كى تعداد كتنى بھى زيادہ ہو ايك ہى قربانى كافى ہے.
عطاء بن يسار بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں قربانى كا كيا حساب تھا ؟
تو انہوں نے جواب ديا:
آدمى اپنى اور اپنے گھروالوں كى جانب سے ايك بكرى قربانى كرتا تو وہ بھى كھاتے اور دوسروں كو بھى كھلاتے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1505 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.
تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
" يہ حديث اس كى صريح نص اور دليل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھروالوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد زيادہ ہى ہو، اور حق بھى يہى ہے.
حافظ ابن قيم رحمہ اللہ " زاد المعاد " ميں كہتے ہيں:
" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت ميں يہ بھى شامل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد كتنى بھى زيادہ ہو.
اور امام شوكانى " نيل الاوطار " ميں لكھتے ہيں:
" حق يہى ہے كہ ايك بكرى ايك گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد سو يا اس بھے زيادہ ہى كيوں نہ ہو، جيسا كہ سنت سے اس كا فيصلہ ہو چكا ہے " انتہى مختصرا.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ثواب ميں شراكت كى كوئى حصر نہيں ہے، ديكھيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سارى امت كى جانب سے قربانى كى، اور ايك شخص اپنى اور اپنے گھر والوں كى جانب سے ايك ہى قربانى كرتا ہے چاہے ان كى تعداد ايك سو ہى كيوں نہ ہو " انتہى.
ديكھيں الشرح الممتع ( 5 / 275 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك خاندان بائيس افراد پر مشتمل ہے، اور آمدنى ايك ہى ہے، اور خرچ بھى ايك، اور وہ سب قربانى بھى ايك ہى كرتے ہيں، مجھے علم نہيں كہ آيا ان كے ليے يہ ايك قربانى كافى ہے يا كہ انہيں دو قربانياں كرنا ہونگى؟
كميٹى كا جواب تھا:
" اگر تو خاندان بڑا ہے اور اس كے افراد زيادہ ہيں اور وہ ايك ہى گھر ميں سكونت پذير ہوں تو ان سب كى جانب سے ايك ہى قربانى كافى ہے، اور اگر وہ ايك سے زيادہ كريں تو يہ افضل ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 408 ).
واللہ اعلم .