الحمد للہ.
اللہ سبحانہ و تعالى نے شادى مشروع كى اور انسان كے ليے اسے بطور احسان ذكر كيا اور اسے اپنى نشانيوں ميں سے ايك نشانى بنايا اور بتايا ہے كہ شادى كى عظيم حكمت يہ ہے كہ خاوند اور بيوى ميں محبت و مودت اور الفت و سكون اور آرام پايا جائے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اس كى نشانيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس نے تمہارى جنس سے ہى بيوياں پيدا كيں تا كہ تم اس سے آرام و سكون پاؤ اور تمہارے درميان محبت و مودت اور الفت پيدا كر دى الروم ( 21 ).
شادى سے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے حكمت چاہى ہے وہ اسى صورت ميں پورى ہو سكتى ہے جب خاوند اور بيوى ميں حسن معاشرت پائى جائے، اور يہ اسى صورت ميں ہوگى جب خاوند اور بيوى دونوں ہى ايك دوسرے كے اپنے اوپر واجب كيے گئے حقوق كى ادائيگى كرينگے.
اس ليے بيوى پر واجب ہے كہ وہ اپنے خاوند كى اچھے طريقہ سے اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند كے ليے جو استمتاع مباح كيا ہے وہ اپنے خاوند كے ليے ممكن بنائے، اور اپنے گھر ميں ہى ٹكى رہے، خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے مت نكلے.
اور بيوى كے اپنے خاوند پر حقوق ميں شامل ہے كہ خاوند اپنى بيوى كو نان و نفقہ اور رہائش اچھے طريقہ سے فراہم كرے اور اسى طرح وہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں سے حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).
پہلے تو خاوند كو نصيحت ہے كہ وہ بيوى كے حقوق كى ادائيگى صحيح طرح كرے، اور اگر كسى معاملہ ميں بيوى كى كوتاہى ديكھے تو ہو سكتا ہے باقى معاملات ميں بيوى كا حسن تصرف اسے اپنے ساتھ ركھنے اور طلاق نہ دينے كى دعوت ديتا ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے النساء ( 19 ).
اور حديث ميں ہے: ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مومن مرد مومن عورت سے بغض نہيں ركھتا، اگر وہ اس كے كسى اخلاق كو ناپسند كرتا ہے تو اس كے كسى دوسرے اخلاق سے راضى ہو جائيگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1469 ).
يفرك: كا معنى يہ ہے كہ وہ بغض نہيں ركھتا.
ہم ديكھتے ہيں كہ خاوند نے اسى حديث پر عمل كيا ہے كہ وہ اپنى بيوى سے جو كچھ بھى پاتا ہے ليكن پھر بھى اس كى اذيت و تكليف پر صبر كر رہا ہے، اور ہو سكتا ہے سوال كرنے والى بہن كو بھى يہى چيز عجيب لگى ہو كہ اس كے باوجود كو اسے طلاق كيوں نہيں دے رہا.
اس ليے كہ خاوند اپنى حكمت اور عقل و سوچ سے ديكھ رہا ہے كہ بيوى كى اصلاح و تربيت كا موقع اور فرصت پايا جاتا ہے كہ اس كى طبيعت تبديل ميں تغير آ جائے، اور خاوند ديكھتا ہے كہ طلاق دينے سے خاندان اور گھر تباہ اور اولاد ضائع ہو جائيگى، جو كہ بيوى كے جھگڑے اور زبان درازى سے بھى زيادہ نقصاندہ ہوگا.
اور بيوى كو ہمارى نصيحت يہ ہے كہ اسے اپنے خاوند كے متعلق اللہ كا ڈر و تقوى اختيار كرنا چاہيے، اور اسے يہ معلوم ہونا چاہيے اس كا خاوند كى اس كى جنت اور جہنم و آگ ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے وہ اس كے باعث جنت ميں داخل ہو جائے، اور پھر جہنم ميں بھى جا سكتى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ذرا خيال كرو كہ تم اپنے خاوند كے متعلق كہاں ہو كيونكہ وہ تمہارى جنت اور جہنم ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 18524 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 220 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے بيوى پر اچھے طريقہ سے اپنے خاوند كى اطاعت فرض كى ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو بتايا ہے كہ ان پر خاوند كا بہت عظيم حق ہے، اور اگر وہ كسى كو كسى شخصيت كے ليے سجدہ كرنے كا حكم ديتے تو بيوى كو حكم ديا جاتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر كسى كو كسے دوسرے كے سامنے سجدہ كرنا جائز ہوتا تو ميں بيوى كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1159 ) امام ترمذى نے اسے حسن قرار ديا ہے.
اس ليے ايك عقل و دانش ركھنے والى عورت تو وہى كچھ كرتى ہے جو اللہ تعالى نے اس پر واجب كيا ہے، اور وہ اللہ كى حدود سے تجاوز نہيں كرتى، عورت كا اپنے خاوند پر زيادتى اور حدود سے تجاوز ميں اسے گالى دينا اور برا كہنا بھى شامل ہے، اور اسى طرح خاوند كے ساتھ كثرت سے جھگڑنا بھى اسى زمرے ميں آتا ہے.
اور اگر ان كى اولاد بھى ہو تو پھر بيوى كا خاوند كو گالى نكالنا تو اور بھى زيادہ گناہ كا باعث ہے كيونكہ اس طرح تو اولاد بھى اپنے باپ كو گالى نكالنے كى جرات كرنے لگيں گے اور اس كے نتيجہ ميں ان كے دل سے والد كا ڈر اور ہيبت ختم ہو كر رہ جائيگى، جو كہ بچوں كى تربيت پر منفى اثر ہے.
اور اگر آپ جانتى ہيں كہ آپ سے جو غلطى ہوئى ہے اس كى اصلاح ممكن ہے تو آپ جتنى جلدى ہو سكے اس كى اصلاح كر ليں، اور يہ اس طرح ہو سكتى ہے كہ آپ سے جو كچھ ہوا اس پر توبہ و استغفار كريں اور نادم ہو كر آئندہ ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كر ليں.
اور اسى طرح آپ كے ليے خاوند سے معافى مانگنا بھى ضرورى ہے، اور خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى اور اس سے حسن معاشرت كريں تو ان شاء اللہ اس طرح آپ اللہ كى رضا و خوشنودى حاصل كريں گى اور خاوند بھى راضى ہو جائيگا، اور آپ كى اولاد كى تريبت بھى اچھى اور بہتر ہوگى.
يہى وہ گھريلو سعادت وخوشبختى ہے جو اكثر لوگ نہيں پاتے، حالانكہ اس كا حل ان كے ہاتھوں ميں ہے، ليكن وہ اس سے غافل ہيں يا پھر وہ اس كى اصلاح كرنے سے تكبر ميں رہتے ہيں.
اس ليے آپ اپنے گھر كى اصلاح اور اپنے خاوند كى سعادت و خوشى اور اپنے بچوں كى تربيت كى حرص ركھيں اللہ تعالى آپ كو بركت سے نوازے، اور كوشش كے ساتھ حرص ركھيں كہ آپ اپنے اچھے اخلاق كو بہتر كر كے اور ہر اس چيز سے جسے آپ اپنے ليے عيب سمجھتى ہيں اور جس ميں آپ اور خاوند كے مابين عليحدگى ہو سكتى ہے اس سے رك كر اپنے خاوند كى عصمت ميں ہى رہيں.
ہم ديكھتے ہيں كہ آپ كى كلام ميں آپ سے جو غير شرعى افعال صادر ہوئے ہيں اس پر حسرت و افسوس پايا جاتا ہے جو كہ ايك اچھى چيز ہے، ليكن اسے ثابت ركھنے اور تقويت دينے كى ضرورت ہے، اس ليے آپ قبوليت كے اوقات ميں دعا كيا كريں كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے دل اور اعضاء كو پاك صاف كردے، اور آپ كو اخلاق حسنہ عطا فرمائے.
آپ اپنے خاوند كے سامنے اپنى غلطى كے اعتراف سے تردد مت كريں، اور اس كے ساتھ معاہدہ اور وعدہ كر ليں كہ وہ صلح كر رہى ہے اور دونوں ہى اپنى اصلاح كر ليں، اور جھگڑے اور گاليوں سے باز آ جائيں، اور نيك و صالح صحبت اختيار كرنے كى حرص ركھيں.
ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں اكٹھے عمرہ كريں، اور اپنے ايمان كى تقويت اور آپس ميں تعلقات كو زيادہ كرنے كے ليے كوئى پروگرام تيار كريں، مثلا روزے اور قرآن مجيد كى تلاوت اور اچھى و فائدہ مند كيسٹ سننا.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو ايسے اعمال كى توفيق نصيب فرمائے جن ميں دنيا و آخرت كى خير و بھلائى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے.
واللہ اعلم