الحمد للہ.
احرام اور سعی کیلیے حیض سے پاکیزگی شرط نہیں ہے، تاہم حائضہ خاتون پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی۔
اس بنا پر جو عورت حج یا عمرے کا ارادہ رکھتی ہو تو وہ میقات سے حیض کی حالت میں احرام کی نیت کر لے تو اس کا احرام شروع ہو جائے گا، اس کی دلیل سیدہ اسما بنت عمیس یعنی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے ذو الحلیفہ میں بچے کو جنم دیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اہل مدینہ کی میقات ذو الحلیفہ میں حج کی نیت سے پڑاؤ کیے ہوئے تھے، تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب پیغام بھیجا کہ اب وہ کیا کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (غسل کرو اور لنگوٹ باندھ لو، اور احرام کی نیت کر لو) مسلم: (1218) مطلب یہ ہے کہ اپنے مخصوص حصے پر اچھی طرح سے کپڑا وغیرہ باندھ لے اور پھر احرام کی نیت کر لے، حج یا عمرہ دونوں کا یکساں حکم ہے۔
نیز حیض کا خون نفاس کے خون جیسا ہوتا ہے، اس لیے ماہواری والی خاتون جب میقات سے گزرے تو غسل کرے اور حدیث پر عمل کرتے ہوئے لنگوٹ باندھ لے ۔
اسی طرح مخصوص ایام میں عورت صفا اور مروہ کی سعی بھی کر سکتی ہے، تاہم طواف کرنا اس کیلیے صحیح نہیں ہے؛ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سیدہ عائشہ کو حکم ہے کہ جب سیدہ عائشہ عمرے کے دوران حائضہ ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم وہ سب کچھ کرو جو حاجی کرتے ہیں لیکن تم بیت اللہ کا طواف پاک ہونے تک مت کرنا) بخاری: (1650) مسلم: (1211)
اس بنا پر یہ خاتون ابھی تک حج کے تحلل ثانی کو حاصل نہیں کر پائی، اور اسے دوبارہ طواف کرنا ہو گا، شادی شدہ ہونے کی صورت میں جب تک طواف نہ کر لے اس وقت تک اس کا خاوند اس سے مباشرت نہیں کر سکتا۔
اس عورت کیلیے حکم یہی ہے چاہے اسے اس کا علم تھا یا وہ لا علم تھی، تاہم اگر اسے علم تھا تو بلا عذر اس سنگین جرم کی وجہ سے اسے گناہ ہو گا ، اور اگر وہ لا علم تھی تو پھر اس پر گناہ نہیں ہو گا لیکن پھر بھی اس پر طواف کرنا لازمی ہو گا؛ اور طواف کے بغیر اسے تحلل ثانی حاصل نہیں ہو گا جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے، نیز اس عورت نے حج کے بعد متعدد عمرے کیے ہیں تو ان عمروں کی وجہ سے یہ طواف افاضہ ساقط نہیں ہو گا۔
دائمی فتوی کمیٹی سے ایک حائضہ عورت کے حج کے متعلق استفسار کیا گیا ہے تو انہوں نے جواب دیا:
"حیض کی وجہ سے حج منع نہیں ہے، چنانچہ اگر کسی عورت نے حیض کی حالت میں احرام کی نیت کر لی تو وہ حج کے سارے اعمال کرے تاہم وہ حیض ختم ہونے کے بعد غسل کرنے تک بیت اللہ کا طواف مت کرے ، یہی حکم نفاس والی عورت کا ہے، چنانچہ اگر حیض والی عورت حج کے ارکان ادا کر لیتی ہے تو اس کا حج صحیح ہے"
دائمی فتوی کمیٹی: (11/172)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک ایسی عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس نے حیض کی حالت میں حرم میں جا کر طواف، سعی اور نمازیں ادا کیں تو انہوں نے جواب دیا:
"کسی بھی عورت کیلیے حیض یا نفاس کی حالت میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، چاہے وہ مکہ میں ہو یا اپنے علاقے میں یا کسی بھی جگہ پر؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا عورتوں کے بارے میں فرمان ہے: (کیا جب عورت حائضہ ہو جائے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور روزہ نہیں رکھتی)، اسی پر تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ حائضہ نہ روزے رکھے گی اور نہ ہی اس کیلیے نماز پڑھنا جائز ہے۔
اس بنا پر مذکورہ کام کرنے والی خاتون پر لازمی ہے کہ اپنی اس حرکت پر سچی توبہ کرے اور اس نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کی اللہ تعالی سے معافی مانگے۔
نیز حیض کی حالت میں اس کا کیا ہوا طواف صحیح نہیں ہے، لیکن صفا مروہ کی سعی صحیح ہے؛ کیونکہ راجح موقف کے مطابق حج کے دونوں میں سعی کو طواف سے پہلے کیا جا سکتا ہے، اس لیے اس عورت پر واجب ہے کہ اپنا طواف دہرائے؛ کیونکہ طواف افاضہ حج کا رکن ہے، اور حج میں تحلل ثانی اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
لہذا اگر یہ عورت شادی شدہ ہے تو خاوند اس سے ہمبستری مت کرے یہاں تک کہ طواف افاضہ کر لے اور اگر شادی شدہ نہیں ہے تو نہ ہی اس کا نکاح پڑھایا جائے یہاں تک کہ طواف افاضہ کر لے" ختم شد
مجموع فتاوى شیخ محمد صالح بن عثیمین 22/382.
واللہ اعلم.