جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا كسى ٹينڈر ميں داخل ہونے سے قبل تاجر كسى ريٹ پر اتفاق كر سكتے ہيں ؟

47354

تاریخ اشاعت : 08-07-2006

مشاہدات : 3670

سوال

كيا كسى تاجر گروپ كے ليے اس بيع كى مخصوص كردہ مالى غلاف كا علم ہونے پر معين ٹينڈر ميں داخل ہونے سے قبل ريٹ پر اتفاق كر لينا جائز ہے، اس ڈر سے كہ كہيں كوئى تاجر اس ٹينڈر ميں ريٹ ميں كمى نہ كر دے، اور اس ٹينڈر كو كسى بھى تاجر كے حاصل كرنے كے بعد وہ آپس ميں اسے تقسيم كر ليں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ٹينڈر ميں داخل ہونے سے قبل تاجروں كے ليے ريٹ پر متفق ہونا جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں صاحب معاملہ كو نقصان اور ضرر ہے، اس ليے كہ اس نے تو ٹينڈر ہى اس ليے ديا ہے كہ اسے كم سے كم ريٹ حاصل ہو سكے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے كہ:

" لوگوں كو چھوڑ دو اللہ تعالى انہيں ايك دوسرے سے روزى مہيا كرتا ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1522 ).

پھر پہلے سے ريٹ پر متفق ہو جانا اور اس ٹينڈر كو مالك كے علم كے بغير ہى تاجروں كا آپس ميں تقسيم كر لينا دھوكہ اور فراڈ ہے.

حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى ہميں دھوكہ ديا وہ ہم ميں سے نہيں ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 101 ).

مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

سرعام بولى ميں خريداروں كا اتفاق كرلينا كہ وہ ايك معين حد سے زيادہ بولى نہيں ديں گے، اس فعل كا حكم كيا ہے؟

كميٹى كا جواب تھا:

منڈى وغيرہ ميں بولى سے خريدنے والے اشخاص كا سامان كى قيمت ميں ايك معين حد تك اتفاق كر لينا ناپسند خود غرضى ميں سے ہے، اور سامان كے مالكوں كو نقصان اور ضرر پہنچانا ہے، اور خود غرضى اور كسى دوسرے كو نقصان دينا دونوں ہى ممنوع ہيں، اور يہ اخلاق ذميمہ گرے پڑے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے جو كسى بھى مسلمان شخص كے شايان شان نہيں، اور نہ ہى شريعت اسلاميہ ہى اسے پسند كرتى ہے.....

اس بنا پر جس شخص كے سامان كے متعلق يہ اتفاق كر ليا جائے كہ اس كى قيمت زيادہ نہيں دينى تو اگر يہ ظاہر ہو جائے كہ اسے اس كے سامان ميں دھوكہ ديا گيا ہے تو اسے سودا ختم كرنے كا اختيار حاصل ہے، اگر وہ چاہے تو بيع كو ختم كردے اور اگر چاہے تو رہنے دے. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 114 ).

مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اپنا كھانا اور كمائى پاكيزہ بنائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو جسم بھى حرام پر پلا اس كے ليے آگ زيادہ بہتر اور اولى ہے"

طبرانى اور ابو نعيم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كى ہے اور اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4519 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے كعب بن عجرۃ رضى اللہ تعالى عنہ سے ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے:

" بلاشبہ جو گوشت بھى حرام پر پلا ہو اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے"

جامع ترمذى حديث نمبر ( 614 ).

اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ہر قسم كے شر سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب