الحمد للہ.
اول:
صحيحين ميں عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالي عنہ سے مروي ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سب سے افضل روزے داود عليہ السلام كےروزے ہيں، وہ ايك دن روزہ ركھتےاور ايك دن نہيں ركھتےتھے"
اور يہ افضليت جمعہ كا روزہ ركھنےكي ممانعت سے متعارض نہيں ؛ اس ليے كہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي نھي اس شخص كےليے ہے جو باقي ايام كو چھوڑ كرصرف جمعہ كوروزے كےليے خاص كرتاہے، اورجو داود عليہ السلام كے روزے ركھے ( يعني ايك دن روزہ ركھے اور ايك دن نہ ركھے ) وہ جمعہ كا روزہ قصدا نہيں ركھ رہا .
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں :
عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالي عنہ كي حديث ميں يہ دليل پائي جاتي ہے كہ جب بغير كسي قصد كے جمعہ يا ہفتہ كےدن روزہ آجائے تواس ميں كوئي حرج نہيں، كيونكہ جب وہ ايك دن روزہ ركھے اور ايك دن روزہ چھوڑے تو وہ جمعہ اور ہفتہ كےدن بھي آئےگا، تواس سے يہ پتہ چلا كہ ان دونوں دنوں كا روزہ حرام نہيں، وگرنہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم يہ فرماتےكہ ايك دن روزہ ركھو اور ايك دن نہ ركھو جب تك جمعہ اور ہفتہ كونہ آئے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 476 )
دوم:
اور رہا آپ كا يہ سوال كہ داود عليہ السلام كي شريعت ميں صرف جمعہ كےروزہ ركھنےكاحكم:
اس كےمتعلق گزارش ہے كہ داود عليہ السلام كي شريعت ميں جمعہ وغير كا روزہ ركھنے كي ممانعت كےمتعلق ہميں كچھ علم نہيں، اور يہ تومعلوم ہے كہ ہر نبي كي ايك شريعت اور طريقہ ہے اور ان سب انبياء كا عقيدہ ايك ہے ليكن شريعتيں مختلف ہے .
فرمان باري تعالي ہے:
تم ميں سے ہر ايك كےليے ہم نے ايك دستور اور راہ مقرر كر دي ہے المائدۃ ( 48 )
ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا: انبياء علاتي بھائي ہيں، ان كي مائيں عليحدہ عليحدہ ہيں اور ان كا دين ايك ہے.
صحيح بخاري حديث نمبر ( 3259 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2365 )
حديث كا معني يہ ہےكہ: انبياء كرام كا دين ايك ہے، اور وہ اللہ كي توحيد اور اللہ وحدہ لاشريك كي عبادت ہے، اگرچہ ان كي شريعتيں مختلف ہيں، ان بھائيوں كي طرح جن كا باپ ايك ہو اور مائيں مختلف ہوں ( اور يہ علاتي بھائي ہوتےہيں )
واللہ اعلم .