الحمد للہ.
اول:
نماز تراویح مستحب عمل ہے اس پر تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے، نیز نماز تراویح قیام اللیل میں شامل ہے، اس لیے قیام اللیل کی ترغیب اور فضائل میں جتنے بھی دلائل کتاب و سنت میں آئے ہیں ان سب میں نماز تراویح کی فضیلت بھی شامل ہے، جیسے کہ ہم بعض فضائل پہلے سوال نمبر: (50070) میں ذکر کر آئے ہیں۔
دوم:
رمضان میں قیام ان بڑی عبادات میں شامل ہے جن کے ذریعے انسان اس مہینے میں قرب الہی حاصل کرتا ہے۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ ماہ رمضان میں مومن کے لئے دو طرح کے جہاد بالنفس اکٹھے ہو جاتے ہیں: دن میں روزے کے ذریعے جہاد بالنفس اور رات کو قیام کے ذریعے جہاد بالنفس، تو جو شخص ان دونوں کو جمع کر لے تو اسے بے حساب اجر دیا جائے گا۔" ختم شد
قیام رمضان کے لئے ترغیب اور فضائل سے متعلق کچھ خاص احادیث بھی وارد ہوئی ہیں ان میں درج ذیل احادیث بھی شامل ہیں:
ایک حدیث جسے امام بخاری: (37) اور مسلم : (759)نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں)
حدیث کے عربی الفاظ کی شرح کچھ یوں ہے کہ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ مطلب کے رمضان کی راتوں میں نماز پڑھتے ہوئے قیام کرے۔
إِيمَانًا یعنی اللہ تعالی کی جانب سے اس عمل پر کیے گئے ثواب کے وعدوں پر یقین رکھے۔
وَاحْتِسَابًا یعنی حصولِ اجر مقصود ہو ریاکاری یا کوئی اور مقصد نہ ہو۔
غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ اس کے بارے میں ابن المنذر نے ٹھوس الفاظ میں کہا ہے کہ اس عمل سے صغیرہ اور کبیرہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ جبکہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: فقہائے کرام کے ہاں مشہور یہ ہے کہ اس میں صرف صغیرہ گناہ شامل ہیں کبیرہ گناہ شامل نہیں۔ جبکہ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ: ممکن ہے کہ اگر صغیرہ گناہ نہ ہوں تو پھر کبیرہ گناہوں میں تخفیف کا باعث بن جائے۔ ختم شد از فتح الباری
سوم:
مومن کو چاہیے کہ کسی بھی وقت سے بڑھ کر رمضان کے آخری عشرے میں خوب عبادت کرے؛ کیونکہ اسی عشرے میں لیلۃ القدر ہے اس رات کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ترجمہ: لیلۃ القدر کی رات ہزار ماہ سے بھی افضل ہے۔ [القدر:3]
اور اس رات کو قیام کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان میں ثواب بھی ذکر ہوا کہ: (جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں)اس حدیث کو امام بخاری: (1768) اور مسلم : (1268)نے روایت کیا ہے۔
اسی لیے: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری عشرے میں عبادت کے لئے اتنی محنت فرماتے تھے کہ دیگر کسی بھی وقت میں نہیں فرماتے تھے) مسلم: (1175)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (جب عشرہ شروع ہو جاتا تو اپنی چادر کس لیتے ، رات کو خود بھی شب بیداری کرتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے) اس حدیث کو امام بخاری: (2024) اور مسلم : (1174)نے روایت کیا ہے۔
حدیث کے عربی الفاظ کی شرح کچھ یوں ہے کہ: دَخَلَ الْعَشْرُ مطلب کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا۔
شَدَّ مِئْزَرَهُ چادر کس لینا در حقیقت عبادت کے لئے خوب محنت سے کنایہ ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیویوں سے دور رہنے سے کنایہ ہے، یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں چیزیں اس سے مراد ہوں۔
وَأَحْيَا لَيْلَهُ یعنی مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ شب بیداری کرتے اور رات اطاعت گزاری اور نماز میں گزارتے۔
وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ یعنی گھر والوں کو بھی رات کی نماز کے لئے بیدار رکھتے تھے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں رمضان کے آخری عشرے کے اندر مستحب قرار دیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ عبادات کی جائیں، اور آخری عشرے کی راتوں میں عبادت گزاری کے ساتھ شب بیداری کی جائے" ختم شد
چہارم:
قیام رمضان با جماعت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور امام کے ساتھ ہی رہیں یہاں تک کہ نماز مکمل ہو جائے؛ کیونکہ اس طرح نمازی کو پوری رات قیام کا ثواب ملے گا، اگرچہ اس نے رات کے تھوڑے سے حصے میں ہی قیام کیا ہو، اللہ تعالی کا فضل بہت وسیع ہے۔
اس بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا نماز تراویح کے مستحب ہونے پر اتفاق ہے، تاہم اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا گھر میں اکیلے نماز تراویح پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں با جماعت ادا کرنا افضل ہے؟ تو امام شافعی، ان کے جمہور شاگرد، ابو حنیفہ، احمد سمیت کچھ مالکی فقہائے کرام اور دیگر کا یہ موقف ہے کہ: نماز تراویح با جماعت افضل ہے، جیسے کہ عمر بن خطاب اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا اور مسلمانوں کا بھی اس پر عمل جاری ہے۔" ختم شد
ترمذی: (806) نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام نماز پوری کر لے تو اس کے لئے ساری رات قیام کا ثواب ہے) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم