منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

قیام اللیل کا اجروثواب

50070

تاریخ اشاعت : 09-07-2012

مشاہدات : 17140

سوال

قیام اللیل کا اجروثواب کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

قیام اللیل سنت مؤکدہ ہے ، اورکتاب وسنت میں اس کی تواترسے نصوص ملتی ہیں جن میں قیام اللیل کرنے پر ابھارا گيا اوراس کی ترغیب دی گئي ہے ، اوراس کی شان وعظمت اورعظيم اجروثواب کوبیان کیاگيا ہے ۔

قیام اللیل کی تثبیت ایمان میں عظیم شان پائي جاتی ہے ، اوراعمال کی بزرگي اورشان میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

اے کپڑے میں لپٹنے والے ، رات کے وقت نمازمیں کھڑے ہوجاؤ مگر کم ، آدھی رات یا اس سے بھی کم کرلے ، یا اس سے بڑھادے اورقرآن ٹھر ٹھر کر صاف پڑھا کر ، یقینا ہم تجھ پر عنقریب بہت بھاری بات نازل کریں گے، بیشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائي مناسب ہے ، اوربات کوبہت درست کردینے والا ہے المزمل ( 1 - 6 ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے اہل ایمان اوراہل تقوی کوبہت اچھی خصلتوں اوراعمال جلیلہ کرنے پر مدح وتعریف کی ہے :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ ہماري آيتوں پرتووہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی بھی نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گرپڑتے ہیں اوراپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اورتکبر نہیں کرتے ۔

ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ تھلگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اورامید کےساتھ پکارتے ہیں ، اورجوکچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں ، کوئي نفس نہیں جانتا کہ جوکچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک انکے لیے پوشیدہ کررکھی ہے ، جوکچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا یہ بدلہ ہے } السجدۃ ( 15 - 17 ) ۔

اورایک مقام پر ان کے اوصاف کچھ اس طرح بیان کیے :

فرمان باری تعالی ہے :

اورجو اپنے رب کے سامنے سجدے اورقیام کرتے ہوئے راتیں بسر کرتے ہيں ، اورجو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے ، بلاشبہ وہ ٹھرنے اوررہنے کے لحاظ سےبد ترین جگہ ہے ۔

اورچند آيات آگے چل کر یہ فرمایا :

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند وبالاخانے دیے جائيں گے جہاں انہیں دعا وسلام پہنچایا جائے گا ، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے وہ رہنے کےلیے بہت ہی اچھی جگہ اورمقام ہے الفرقان ( 64 - 75 ) ۔

ان آیات میں قیام اللیل کی فضيلت کی تنبیہ پائي جاتی ہے اوراس کا اجروثواب بھی جومخفی نہيں ، اورپھر یہ عذاب جہنم سے دوری اور جنت میں داخلے اورکامیابی کا سبب بھی ہے اوراسی بنا پرجنت میں پائي جانی والی ہیشہ ہمیشہ کےلیے نعمتوں کا حصول بھی ہوتا ہے ۔

اوراس اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العالمین کا قرب وپڑوس بھی پایا جاتا ہے ، اللہ تعالی ہمیں یہ انعامات حاصل کرنے والوں میں شامل فرمائے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ الذرایات میں متقین کی صفات بیان کیں ہیں اوران میں قیام اللیل کو بھی ذکر فرمایا ہے ، اوریہ بیان کیا ہے کہ ایسی صفات کے مالک لوگ وسیع جنات کے مالک بنے اورانہیں اس کی نعمتیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئي ۔

فرمان باری تعالی ہے :

بلاشبہ متقی لوگ بہشتوں اورچشموں میں ہوں گے ، ان کے رب نے انہيں جوکچھ عطا فرمایا ہے اسے حاصل کررہے ہونگے وہ تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے ، اوروہ رات کوبہت ہی کم سویا کرتے تھے ، اورسحری کے وقت استغفار کیا کرتے تھے الذاریات ( 15 - 18 ) ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت سی احادیث میں قیام اللیل پر ابھارا اوراس کی ترغیب دلائي ہے جن میں سے چند ایک ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1163 ) ۔

اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا :

( تم رات کا قیام ضرور کیا کرو ، اس لیے کہ تم سے پہلے صالح لوگوں کی یہی عادت تھی ، اوریہ تمہارے رب کے قرب کا باعث بھی ہے ، اور گناہوں ومعاصی کوختم کرنے والا ہے ، اورگناہوں سے منع کرنے والا ہے )

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3549 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 452 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔

قولہ : ( فانہ داب الصالحین ) یعنی ان کی عادت اورحالت ۔

قولہ : ( وھوقربۃ الی ربکم ) یعنی یہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے والی اشیاء میں سے ہے ۔

قولہ : ( ومکفرۃ للسیات ) یعنی برائيوں کومٹاڈالتا اورختم کردیتا ہے ۔

قولہ : ( ومنھاہ للاثم ) یعنی گناہ کے ارتکاب سے روکتا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

یقینا نماز برائي اور بے حیائي کے کاموں سے روکتی ہے ۔

اورعمرو بن مرۃ الجھنی رضي اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قضا‏عۃ قبیلے کا ایک شخص آيا اورکہنے لگا :

مجھے بتائيں کہ اگر میں گواہی دوں کے اللہ تعالی کے علاوہ کوئي معبود برحق نہيں اوریقینا آپ اللہ تعالی کے رسول ہيں ، اورپانچوں نمازکی ادائيگي کروں ، اوررمضان کے مہینہ کے روزے رکھوں اورقیام کروں ، اورزکاۃ ادا کروں تومجھے کیا ملے گا ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

جوشخص بھی ایسے اعمال کرتا ہوافوت ہوجائے وہ صدیقین اورشھداء کے ساتھ ہوگا ) صحیح ابن خزيمۃ ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابن خزيمہ ( 2212 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( یقینا جنت میں کچھ ایسے بالاخانے بھی ہيں جن کے اندر سے ان کا باہر والا حصہ دیکھا جاسکتا ہے ، اوران کے باہرسے اندر والا دیکھا جاتا ہے ، توایک اعرابی شخص کھڑا ہوکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بالا خانے کس کے لیے ہیں ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے بھی اچھی اوربہترکلام کی ، اورکھانا کھلایا ، اور روزوں پر ہمیشگي کی ، اور رات کو جب سب لوگ سو رہے ہوں تواس نے نماز ادا کی ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1984 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔

امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورکہنے لگے : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ جتنا مرضی زندہ رہ لیں بالآخر آپ کوموت نے آگھیرنا ہے ، اورجس سے چاہیں محبت کرلیں یقینابالآخر آپ اس سے جدا ہوجائيں گے ، اورجو چاہیں عمل کرلیں آپ کو اس کا بدلہ دیا جائے گا ، اورآپ آپنے علم میں رکھیں کہ مومن کا شرف مرتبہ اس کے قیام اللیل میں ہے اوراس کی عزت لوگوں سے استغناء اوربے پرواہی ہے ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 73 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔

اورایک حديث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

( جوشخص بھی دس آيات کے ساتھ قیام کرے وہ غافل لوگوں میں نہیں لکھا جائے گا ، اورجس نے ایک سوآیات پڑھ کرقیام کیا وہ قانتین میں لکھا جائے گا ، اورجس نے ایک ہزار آيات پڑھ کر قیام کیا اسے مقنطرین میں لکھا جائے گا ) ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1398 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

مقنطرین وہ لوگ ہیں جنہیں اجروثواب کاقنطار دیا جائے گا، اورقنطار سونے کی ایک مقدار کوکہتے ہیں ، اوراکثر اہل علم کا کہنا ہےکہ یہ چارہزار دینار ہیں ۔

اورقنطار کے معنی میں یہ بھی کہا گيا ہے کہ : بیل کی کھال کوسونے سے بھرا جائے تواسے قنطار کہا جاتا ہے ، اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ : اسی ہزار دینار ہیں ، اورایک قول یہ بھی ہے کہ : بہت زيادہ مال جس کی مقدار معلوم نہ ہو کوقنطار کہا جاتا ہے ۔

دیکھیں " النھایۃ فی غریب الحدیث لابن الاثير "

حدیث سے مراد یہ ہے کہ اس میں ایک ہزار آيت کے ساتھ قیام کرنے والے کے اجروثواب کی عظمت کو بیان کیا گيا ہے ۔

امام طبرانی رحمہ اللہ تعالی نے روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( قنطار دنیا اوراس میں پائي جانے والی اشیاء سے بہتر ہے ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الترغیب ( 638 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔

فائدہ :

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

سورت الملک یعنی تبارك الذي بيده الملك سے قرآن مجید کے آخر تک ایک ہزار آيات ہیں ۔ اھـ

لھذا جس نے بھی سورۃ الملک سے لیکر آخر قرآن مجید تک پڑھ کرقیام کیا اس نے ایک ہزار آیت کے ساتھ ہی قیام کیا ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب