ہفتہ 2 ربیع الثانی 1446 - 5 اکتوبر 2024
اردو

قبر پر پھول يا كھجور كى ٹہنى ركھنى مشروع نہيں ہے

48958

تاریخ اشاعت : 21-06-2010

مشاہدات : 14588

سوال

ميں نے ايك حديث پڑھى ہے كہ:
" نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر پر كھجور كى ٹہنى ركھى تھى"
تو كيا قبر كى زيارت كرنے والے شخص كے ليے ايسا كرنا سنت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس حديث كى طرف سائل نے اشارہ كيا ہے وہ حديث بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كى ہے:

وہ كہتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے تو فرمانے لگے:

" ان دونوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور يہ عذاب كسى بڑى چيز ميں نہيں، ان ميں سے ايك شخص تو پيشاب كے چھينٹوں سے نہيں بچتا تھا، اور دوسرا غيبت كرتا تھا"

پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تازہ كھجور كى ايك ٹہنى لے كر اسے دو حصے كيا اور ہر ايك قبر پر ايك ٹہنى گاڑ دى، صحابہ كرام نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے ايسا كيوں كيا؟

تورسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ميں ارشاد فرمايا:

" اميد ہے كہ جب تك يہ خشك نہ ہوں تو اللہ تعالى ان كے عذاب ميں تخفيف ركھے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 218 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 292 ).

بعض علماء كرام نے عذاب ميں كمى كى علت يہ بيان كى ہے كہ ہرى بھرى ٹہنى اللہ تعالى كى تسبيح بيان كرتى ہے، تو يہ عذاب ميں تخفيف كا باعث بنے گى، اس علت ميں نظر يعنى اعتراض ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كى تفسير ميں اكثر اور زيادہ مفسرين كا يہى مذہب ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور كوئى بھى چيز ايسى نہيں جو اللہ تعالى كى پاكيزگى اور تسبيح بيان نہ كرتى ہو الاسراء ( 44 ).

مفسرين كا كہنا ہے كہ:

اس كا معنى يہ ہے كہ: ہر زندہ چيز، اور ان كا كہنا ہے كہ: ہر چيز كى زندگى اس كے حال كےمطابق ہے، تو لكڑى كى زندگى اس وقت تك ہے جب تك وہ خشك نہيں ہوتى، اور پتھر جب تك ٹوٹتا نہيں، اور مفسرين ميں سے محققين نے يہ مسلك اختيار كيا ہے كہ يہ آيت اپنے عموم پر ہے. اھـ

يعنى اس آيت ميں تسبيح خشك كو چھوڑ كر تازہ اورہرى بھرى كےساتھ خاص نہيں، بلكہ ہر رطب و يابس چيز اللہ تعالى كى تسبيح بيان كر رہى ہے.

اور خطابى اور ان كا مسلك اختيار كرنے والوں نے اس حديث پر عمل كرتے ہوئےقبر پر كھجور وغيرہ كى ٹہنى ركھنے سے انكار كيا اور اس حديث كے متعلق كہا ہے:

يہ اس پرمحمول ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ليے دعا كى كہ جب تك يہ ٹہنى خشك نہ ہو اس وقت تك ان كےعذاب ميں تخفيف كر دى جائے، نہ كہ ٹہنى ميں كوئى معنى تھا جواس كے ساتھ خاص ہے، اور نہ ہى يہ كہ جو معنى رطب ہے وہ يابس ميں نہيں. اھـ

اور اس بنا پر يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص ہوگا، لھذا كسى كے ليے بھى ٹہنى وغيرہ قبر پر ركھنى مستحب نہيں ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا دونوں قبروں پر كھجور كى ٹہنى ركھنا، اور جن قبروں پر ٹہنى ركھى ان كے عذاب ميں كمى كى اميد كرنا ايك معين واقعہ ہے اسے عموم حاصل نہيں، ان دوشخصوں كے متعلق ہے جن كےعذاب پر اللہ تعالى نے نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مطلع كرديا تھا.

اور يہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كےساتھ خاص ہے، اور يہ ان كى جانب سےمسلمانوں كى قبروں كے ليےكوئى سنت نہيں ہے، بلكہ اگر فرض كر ليا جائے كہ اس طرح كے كئى ايك واقعات پيش آئے تو دو يا تين بار ہى ہوا، نہ كہ اس سے زيادہ بار.

اور كسى ايك صحابى سے بھى ايسا كرنا ثابت نہيں، حالانكہ صحابہ كرام مسلمانوں ميں سب سے زيادہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى كى حرص ركھنے والےتھے، اور مسلمانوں كو فائدہ دينے ميں بھى سب سے زيادہ حرص ركھتےتھے.

صرف اتنا ہے كہ بريدۃ اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے وصيت كى تھى كہ ان كى قبر پر كھجور كى دو ٹہنياں ركھى جائيں، ہميں علم نہيں كہ صحابہ كرام ميں سے كسى ايك نے بھى اس ميں بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے موافقت كى ہو. اھـ

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ مشروع نہيں بلكہ بدعت ہے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان دونوں قبروں پر اس ليے ٹہنى ركھى كہ اللہ تعالى نے ان كے عذاب سے انہيں مطلع كيا تھا، اور اس كےعلاوہ كسى اور قبر پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں ركھى.

تو اس سے علم ہوا كہ يہ قبروں پر ركھنى جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے ايسا كوئى عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل مردود ہے"

اورمذكورہ دونوں حديثوں كى بنا پر اسى طرح نہ تو قبروں پر كتبے لگانا اور لكھنا، اور پھول وغيرہ ركھنا جائز نہيں؛ اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو قبريں پختہ كرنے اور اس پرعمارت قائم كرنے اور اس پر بيٹھنے اور اس پر لكھنےسے منع فرمايا ہے. اھـ

ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 68 / 50 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب