الحمد للہ.
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
ميں عيد كے روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ عيد ميں موجود تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بغير اذان اوراقامت كے خطبہ سے قبل نماز عيد پڑھائى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 885 ).
امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ تعالى نے ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہم سے روايت كيا ہے كہ:
عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں اذان نہيں ہوتى تھى "
جابر بن عبد اللہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" عيد الفطر كى نماز كے ليے جب امام نكلے تو كوئى اذان نہيں، اور نہ ہى اس كے نكلنے كے بعد اذان ہے، اور نہ ہى اقامت اور اعلان وغيرہ كچھ نہيں اس دن نہ تو اعلان ہے اور نہ ہى اقامت"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 960 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 886 ).
يہ اس كى دليل ہے كہ نماز عيد كے ليے نہ تو اذان ہے اور نہ ہى اقامت اور نہ ہى اس كے ليے كسى طرح كا اعلان ہو گا.
اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ: چاند يا سورج گرہن كى نماز پر قياس كرتے ہوئے نماز عيد كے ليے " الصلاۃ جامعۃ " كے الفاظ كے ساتھ اعلان كرنا جائز ہے.
اور يہ قياس مندرجہ بالا جابر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث كے مقابلہ ميں ہے لہذا اس پر عمل نہيں كيا جائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ہمارے اصحاب كا كہنا ہے كہ: " الصلاۃ جامعۃ " كے الفاظ سے اعلان كيا جائيگا، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول يہى ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر عمل كرنا زيادہ حق ركھتا ہے، اور اس كى اتباع ضرورى ہے" اھـ
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نماز عيد اور نماز استسقاء كے ليے اعلان نہيں كيا جائيگا، ہمارے اصحاب ميں سے ايك گروہ كا يہى كہنا ہے. اھـ
صاحب " الانصاف " نے شيخ الاسلام سے نقل كيا ہے: ديكھيں: الانصاف ( 1 / 428 ).
اور زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب عيد گاہ پہنچتے تو نماز شروع كر ديتے ـ يعنى نماز عيد پڑھاتے ـ نہ تو اذان اور نہ ہى اقامت كہتے، اور نہ ہى " الصلاۃ جامعۃ " كے الفاظ كہے جاتے، سنت يہى ہے كہ يہ كام نہ كيے جائيں" اھـ
اور سبل السلام ميں صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ كہنا كہ: نماز عيد كے ليے " الصلاۃ جامعۃ " كہنا مستحب ہے.
يہ قول صحيح نہيں؛ كيونكہ اس كے استحباب پر كوئى دليل نہيں ملتى اور اگر مستحب ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے خلفاء راشدين اسے كبھى بھى ترك نہيں كرتے، جى ہاں يہ صرف چاند يا سورج گرہن كى نماز ميں ثابت ہے، اس كے علاوہ كسى اور ميں نہيں، اور اس ميں قياس بھى صحيح نہيں؛ كيونكہ جس كا سبب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں پايا گيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے نہيں كيا تو ان كےدور كے بعد اسے كرنا بدعت ہے، اس ليے اسے قياس وغيرہ كے ساتھ ثابت كرنا صحيح نہيں ہے" اھـ
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا نماز عيد كے ليے اذان اور اقامت ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" نماز عيد كے ليے نہ تو اذان ہے اور نہ ہى اقامت، سنت نبويہ سے يہى ثابت ہے، ليكن بعض اہل علم رحمہم اللہ كہتے ہيں كہ: نماز عيد كے ليے " الصلاۃ جامعۃ " كے الفاظ كے ساتھ ندى دى جائيگى، ليكن اس قول كى كوئى دليل نہيں ملتى، اور يہ قول ضعيف ہے، اور نہ ہى چاند اور سورج گرہن كى نماز پر اسے قياس كرنا صحيح ہے، كيونكہ گرہن تو لوگوں كے شعور كے بغير آتا ہے، بخلاف عيد كے، اس ليے سنت يہى ہے كہ اس كے ليے نہ تو اذان كہى جائے اور نہ ہى اقامت، اور نہ ہى " الصلاۃ جامعۃ " كے الفاظ وغيرہ پكارے جائيں.
بلكہ لوگ عيد گاہ جائيں، اور جب امام آئے تو بغير كسى اذان اور اقامت كے نماز عيد ادا كريں، اور نماز كے بعد خطبہ عيد ہو" اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 237 ).
واللہ اعلم .