جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

مسافر كو مشقت نہ بھى ہو تو وہ نماز قصر كرے گا

48979

تاریخ اشاعت : 19-05-2006

مشاہدات : 5745

سوال

قصر ميں كيا چيز معتبر ہے، مشقت كا ہونا يا كہ صرف سفر كى موجودگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز قصر كرنے كے ليے سفر معتبر ہے، چاہے مسشقت ہو يا نہ.

اللہ سبحانہ وتعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز قصر كے حكم كو سفر پر معلق كيا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور جب تم زمين ميں سفر كرو تو تم پر نماز قصر كرنے ميں كوئى حرج نہيں اگر تم ڈرو كہ كافر تمہيں فتنہ ميں ڈاليں گے، يقينا كافر تمہارے كھلے دشمن ہيں النساء ( 101 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سفر كى نماز دو ركعت ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 1420 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اسطرح ہے :

" يقينا اللہ تعالى نے مسافر سے آدھى نماز معاف كردى ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2275 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس كى دليل يہ بھى ہے كہ: مقيم شخص ( جو مسافر نہيں ) كے ليے نماز قصر كرنى جائز نہيں، چاہے اسے پورى نماز ادا كرنے ميں مشقت بھى ہوتى ہو اس كى دليل يہ ہے كہ حكم كو سفر كے ساتھ معلق كيا گيا ہے نہ كہ مشقت كے ساتھ.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر كوئى انسان لمبى مسافت كا ہوائى جہاز كے ذريعہ سفر كرے ليكن يہ سفر دو گھنٹے يا اس سے بھى كم ميں طے ہو جاتا ہے تو كيا يہ مسافر نماز قصر كرے گا، اور رمضان ميں روزہ افطار كر سكتا ہے يا نہيں ؟

اور اسى طرح ايك انسان گاڑى كے ذريعہ تقريبا دو سو ميل يا اس سے زيادہ مثلا اڑھائى گھنٹوں ميں طے كرتا اور شام كو واپس اپنے گھر لوٹ آتا اور نماز قصر كرتا ہے تو كيا يہ قصر كرنى جائز ہے يا كہ نہيں ؟ ليكن اگر سفر كى مشقت اور تھكاوٹ ہو تو پھر قصر كرے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" جتنى مسافت كا سوال كا ذكر ہوا ہے مسافر كے ليے اس ميں نماز قصر كرنى اور اسى مسافت ميں روزہ افطار كرنے كى رخصت ہے، چاہے وہ مسافت كم وقت يا زيادہ ميں طے كى جائے، ايك گھنٹہ يا اس سے زيادہ وقت لگے، اور چاہے اسے مشقت ہو يا نہ؛ كيونكہ سفر كى شان ہى مشقت ہے، چاہے بالفعل مشقت نہ بھى ہوتى ہو، يہ اللہ تعالى كى جانب سے اپنے بندوں پر رحمت اور فضل ہے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 127 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب