اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

حرام مال کے ساتھ حج کرلیا

48986

تاریخ اشاعت : 19-02-2004

مشاہدات : 10244

سوال

کیا حرام مال سے حج کرنے والے کا حج صحیح ہے کہ نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس کا حج صحیح ہے اوراس کا فریضہ حج ادا ہوجائے گا لیکن اس کا حج مبرور نہيں اوراس کے اجروثواب میں بہت ہی زيادہ نقص پیدا ہوا ہے ، آپ اس کی مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 34517 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " المجموع " میں کہتے ہیں :

جب کسی نے حرام مال سے حج کیا تووہ گنہگار ہے اوراس کا حج صحیح اورادا ہوجائے گا ، اوراکثرفقھاء کرام نے بھی یہی کہا ہے ۔ اھ کچھ کمی بیشی کےساتھ نقل کیا گياہے ۔

دیکھیں : المجموع للنووی ( 7 / 62 ) ۔

اورالموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے کہ :

اگر کسی نے شبہ والے مال سے حج کیا یا غصب شدہ مال سے تو ظاہر حکم سے اس کا حج صحیح ہے ، لیکن وہ گنہگار ہے اوراس کا حج مبرور نہيں ، امام شافعی ، امام مالک ، امام ابوحنیفہ اورسلف وخلف میں سے جمہورعلماء کرام کا یہی مسلک ہے ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

حرام مال سے کیا ہوا حج ادا نہيں ہوتا ، اورایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کا حج حرمت کے ساتھ صحیح ہے ۔

اورحدیث شریف میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا کہ وہ بہت لمبا سفر کرتا ہے اوربال پراگندے ہیں اوراورگرد وغبار میں اٹا ہوا اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے ہوئے یارب یارب کہہ رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ، اس کا پینا حرام ، اس کا لباس حرام کا اوراسے غذا ہی حرام کی دی گئي ہے تواس اس کی دعا کس طرح قبول ہوگي ۔اھـ

دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 17 / 131 ) ۔

اورشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

جب اس نے حج اللہ تعالی کے مشروع کردہ طریقہ کے مطابق کیا تواس کا حج صحیح ہے ، لیکن اسے حرام کمائي استعمال کرنے کی وجہ سے گناہ ہوگا ، اوراسے اللہ تعالی کے ہاں اس فعل سے توبہ کرنا ہوگي ، اورحرام کمائي کی وجہ سے اس کا حج ناقص شمار ہوگا ، لیکن اس کا فریضہ ادا ہوجائے گا ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی ابن باز ( 16 / 387 ) ۔

اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی کے فتوی ) میں ہے :

حرام کمائي کے مال سے کیا گئے حج کے صحیح ہونےمیں کوئي مانع نہيں ، لیکن حرام کمائي کی بنا پراسے گناہ ہوگا ، اوراس کے حج کے اجروثواب میں کمی توہوگي لیکن حج باطل نہیں ہوگا ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 43 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب