اتوار 3 ربیع الثانی 1446 - 6 اکتوبر 2024
اردو

عيد كے ليے غسل كرنے كا وقت

سوال

عيد كے دن غسل كب كيا جائے، كيونكہ اگر ميں فجر كے بعد غسل كروں تو وقت بہت كم ہوتا ہے، كيونكہ عيد گاہ گھر سے دور ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عيد كے روز غسل كرنا مستحب ہے.

بيان كيا جاتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے روز غسل كيا تھا.

اور اسى طرح بعض صحابہ كرام سے سے عيد كے روز غسل كرنا مروى ہے مثلا على بن ابى طالب، اور سلمہ بن اكوع، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے اثر كے علاوہ باقى سب كى سنديں ضعيف ہيں... اور اس ميں بااعتماد ( يعنى اس كے استحباب ميں ) ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا ہى اثر، اور جمعہ پر قياس ہے. اھـ

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس ميں دو ضعيف احاديث ہيں.. ليكن ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما جو كہ سنت پر عمل كى شديد حرص ركھتے تھے ان سے ثابت ہے كہ وہ عيد كے روز نماز عيد كے ليے نكلنے سے قبل غسل كيا كرتے تھے. اھـ

دوم:

عيد كے ليے غسل كا وقت:

افضل تو يہ ہے كہ نماز فجر كے بعد غسل كيا جائے، ليكن اگر وقت كى تنگى اور مشقت كى بنا پر نماز فجر سے قبل بھى غسل كر ليا جائے تو كافى ہے اس ليے كہ فجر كے بع سب نے غسل كرنا اور نماز عيد كے ليے نكلنا ہے، اور عيد گاہ بھى دور ہو.

موطا كى شرح " المنتقى " ميں ہے:

مستحب يہ ہے كہ عيدگاہ جانے كے وقت غسل كيا جائے، ابن حبيب كا كہنا ہے كہ عيد كے ليے غسل كا افضل وقت فجر كى نماز كے بعد ہے، امام مالك رحمہ اللہ تعالى المختصر ميں كہتے ہيں: اگر عيدين كے ليے نماز فجر سے قبل بھى غسل كر ليا جائے تو صحيح ہے. اھـ

اور شرح مختصر خليل ميں ہے:

غسل كا وقت رات كے آخرى چھٹے حصہ سے ہے.

ديكھيں: شرح مختصر خليل ( 2 / 102 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:

اور غسل ( يعنى عيد كے غسل ) كا وقت طلوع فجر كے بعد ہے، خرقى كے كلام سے يہى ظاہر ہوتا ہے.

اور قاضى اور آمدى رحمہما اللہ كا كہنا ہے: اگر اس نے فجر سے قبل غسل كر ليا تو سنت پر عمل نہيں ہوا، كيونكہ نماز عيد كا غسل دن ميں ہے اس ليے فجر سے قبل غسل كرنا جائز نہيں، جيسا كہ جمعہ كا غسل ہے.

اور ابن عقيل كہتے ہيں كہ: امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے بيان كيا جاتا ہے كہ فجر سے قبل اور بعد ميں غسل كر سكتا ہے؛ كيونكہ عيد كا وقت جمعہ كے وقت سے تنگ ہے، اس ليے اگر اسے فجر پر ہى موقوف كر ديا جائے تو ہو سكتا ہے وقت ہى نكل جائے، اور اس ليے بھى اس سے صفائى كرنا مقصد ہے، اور نماز كے قريب ہونے كى وجہ سے رات كو غسل كرنے سے بھى حاصل ہو جاتا ہے، ليكن فجر كے بعد غسل كرنا افضل ہے، تا كہ اختلاف سے بچا جائے، اور نماز كے بالكل قريب ہونے كى بنا پر زيادہ صفائى كا باعث ہو" اھـ

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" اس غسل كے صحيح وقت كے متعلق دو مشہور قول ہيں:

پہلا قول: كتاب الام ميں فجر كے بعد بيان كيا گيا ہے.

اور ان دونوں قولوں ميں سے صحيح اور جس پر اصحاب كا اتفاق بھى ہے وہ فجر سے قبل اور بعد غسل كرنا جائز ہے...

قاضى اور ابو طيب نے اپنى كتاب " المجرد" ميں كہا ہےكہ:

" امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے " البويطى" ميں طلوع فجر سے قبل غسل كرنے كو صحيح بيان كيا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر ہم يہ كہيں كہ زيادہ صحيح يہ ہے كہ فجر سے قبل غسل كرنا صحيح ہے، تو اس كے ضبط ميں تين وجہيں ہيں:

ان ميں سے زيادہ صحيح اور مشہور يہ ہے كہ: آدھى رات كے بعد غسل كرنا صحيح ہے، اس سے قبل نہيں.

دوسرى: سارى رات غسل صحيح ہے، غزالى نے اسے بالجزم كہا ہے، اور ابن صباغ وغيرہ نے اسے اختيار كيا ہے.

تيسرى:

فجر سے قبل سحرى كے وقت غسل كرنا صحيح ہے، امام بغوى رحمہ اللہ نے اسے ہى صحيح كہا ہے. اھـ مختصرا

تو اس بنا پر فجر سے قبل غسل كرنے ميں كوئى حرج نہيں تا كہ مسلمان نماز عيد كے ليے جا سكے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب