الحمد للہ.
عربی زبان میں لفظ “کوثر” بطور صفت آتا ہے، اور کثرت میں مبالغے کا معنی دیتا ہے۔
جبکہ شرعی طور پر اس کے دو معانی ہیں:
پہلا معنی:
اس سے مراد جنت کی ایک نہر ہے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا فرمائی ہے، سورت الکوثر میں یہی معنی مراد لیا گیا ہے: إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ترجمہ: یقیناً ہم نے نہر کوثر آپ کو عطا کی ہے۔ [الکوثر: 1] آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس کا یہی معنی بیان کیا ہے جیسے کہ صحیح مسلم: (607) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : “ہم نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کو اچانک نیند کا جھونکا سا آیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا، تو ہم نے آپ سے استفسار کیا: یا رسول اللہ ! آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھ پر ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاوت فرمائی: بسم الله الرحمن الرحيم . إنا أعطيناك الكوثر… آپ نے سورت مکمل تلاوت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ ) ہم نے عرض اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ ایک نہر ہے جس کا مجھ سے میری رب نے وعدہ کیا ہے، اس نہر پر خیر کثیر ہے، اور وہ حوض ہے، جس پر قیامت کے دن میری امت کے لوگ پانی پینے کے لیے آئیں گے۔ )” الحدیث
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (“الکوثر” جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اس کے پانی کا گزر موتیوں اور یاقوت پر ہوتا ہے۔۔۔ الحدیث) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ : (3284) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا، اسی طرح البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح سنن ترمذی: ( 3 / 135 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوسرا معنی:
اس سے مراد بہت بڑا حوض ہے جہاں پر پانی جمع ہو، یہ قیامت کے دن میدان محشر میں ہو گا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت پانی پینے کے لیے آئے گی، اس حوض کا پانی بھی جنت کی نہرِ کوثر سے آتا ہے، اور اسی لیے اسے حوضِ کوثر کہا جاتا ہے، اس کی دلیل صحیح مسلم: (4255) میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (حوض میں دو پرنالے جنت سے گرتے ہیں۔) اس حدیث سے محسوس ہوتا ہے کہ حوض کوثر بھی جنت کے ساتھ ہی ہے کہ جنت کی نہر کا پانی اس حوض میں گرتا ہے۔ یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فتح الباری: ( 11 / 466 ) میں قول ہے۔ واللہ اعلم
رہا یہ سوال کہ کیا یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص ہے؟ کسی اور نبی کو نہیں ملا؟
چنانچہ نہرِ کوثر کہ جس کا کچھ پانی حوضِ کوثر میں گرتا ہے، اس کے بارے میں ایسا کہیں نہیں ملا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی اور نبی کو بھی یہ نہر عطا کی گئی ہو، پھر اللہ تعالی نے اسی نہر کا تذکرہ کر کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنا احسان بھی جتلایا ہے، اس لیے یہ کوئی بعید نہیں ہے کہ نہرِ کوثر صرف ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص ہو، کسی اور نبی کو نہ دی گئی ہو۔
جبکہ حوضِ کوثر کے بارے میں علمائے کرام کے ہاں مشہور موقف یہی ہے کہ وہ بھی ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مختص ہے، اس موقف کی صراحت علامہ قرطبی نے مسلم کی شرح المفہم میں کی ہے۔ تاہم سنن ترمذی: (2367) میں سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر نبی کا ایک حوض ہو گا، اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر پانی پینے والے زیادہ آتے ہیں، اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ میرے حوض پر سب سے زیادہ لوگ جمع ہوں گے)اس حدیث کی تمام تر اسانید ضعیف ہیں، لیکن بعض علمائے کرام نے کثرت اسانید کی وجہ سے اس حدیث کو قبول کیا ہے، جیسے کہ البانیؒ نے سلسلہ صحیحہ : (1589) میں کیا ہے۔ جبکہ بعض علمائے کرام نے پھر بھی اسے ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ بہ ہر حال اگر حدیث ثابت ہو جائے تو نہرِ کوثر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے خاص ہو گی، حوض نہیں۔ اور اگر یہ حدیث ثابت نہ ہو تو پھر کوئی بعید نہیں کہ حوض بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاصہ ہو۔ واللہ اعلم
صحیح احادیث مبارکہ میں جنت میں جاری نہرِ کوثر کی خوبیاں اور اوصاف ذکر ہوئے ہیں، اسی طرح میدان محشر کے حوضِ کوثر کے متعلق بھی تفصیلات ملتی ہیں، چنانچہ جنت کی نہرِ کوثر کے بارے میں آتا ہے کہ:
صحیح بخاری: (6581) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کیا کہ: (میں جنت میں چل رہا تھا کہ میں ایک نہر پر پہنچا اس کے دونوں کناروں پر خول دار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا جبرئیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو دی ہوئی ہے۔ تو فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ مارا تو اس کی خوشبو یا مٹی تیز مشک جیسی تھی۔)
مسند احمد: (12084) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے کوثر دی گئی ہے، یہ زمین کی پشت پر جاری ایک نہر ہے اور اس کے کنارے خول دار موتیوں کے ہیں، یہ نہر ڈھانپی ہوئی نہیں ہے۔ میں نے اس کی مٹی پر ہاتھ مارا تو اس کی مٹی تیز کستوری تھی، اور اس کی کنکریاں موتی تھے۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ : (2513) میں صحیح قرار دیا ہے۔
مسند احمد: (12828)میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کوثر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (وہ ایک جنت میں نہر ہے جو اللہ تعالی نے مجھے عطا کی ہے، اس کی سفیدی دودھ سے زیادہ ، اس کی مٹھاس شہد سے زیادہ، ، اس میں پرندے ہیں جن کی گردنیں اونٹوں کی طرح لمبی ہیں۔) اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ پرندے تو بہت ہی خوبصورت ہوں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عمر! انہیں کھانے والے ان پرندوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں گے۔) اس حدیث کو البانی ؒ نے صحیح ترغیب و ترہیب: (3740) میں صحیح قرار دیا ہے۔
میدان محشر کے حوض کی تفصیلات کے حوالے سے درج ذیل احادیث ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( میرا حوض [کا رقبہ] ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہو گا اور اس کے سارے کنارے یکساں ہوں گے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی ہو گی اور اس کے کوزے آسمان کے تاروں کی تعداد میں ہوں گے۔ جو شخص اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گا وہ پھر کبھی بھی پیاسا نہ ہو گا) اس حدیث کو امام بخاری: (6093) اور مسلم : (4244) نے روایت کیا ہے۔
صحیح مسلم: (4261) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس میں سونے اور چاندی کے آب خورے آسمان کے تاروں کی تعداد میں نظر آئیں گے۔) ایک روایت میں الفاظ ہیں کہ: (آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ ہوں گے۔)
صحیح مسلم : (4256) میں ہی سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پانی کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: (دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا، اس میں دو پرنالے جنت میں سے گرتے ہوں گے، ایک سونے کا ہو گا اور دوسرا چاندی کا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کے ماہرین کے ہاں حوضِ کوثر کی روایات متواتر ہیں، اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے، کیونکہ حوضِ کوثر سے متعلق روایات کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد 50 سے زیادہ ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ( 11/468 )میں ان صحابہ کرام کے نام بھی ذکر کیے ہیں، حتی کہ قرطبی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح المفہم میں یہاں تک کہہ دیا کہ:
“ہر مکلف پر لازم ہے کہ یہ بات جان لے اور پھر اس کی دل سے تصدیق بھی کرے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو خصوصی طور پر ایک حوض عطا فرمایا ہے، اس حوض کا نام، اوصاف اور پانی کے متعلق تفصیلات مشہور اور صحیح روایات میں بالکل واضح ہے، اور ان تمام روایات کے مجموعہ سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔۔۔”
میدان محشر میں حوضِ کوثر کس جگہ ہو گا؟
اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، کچھ کہتے ہیں کہ حوضِ کوثر پل صراط کے بعد ہو گا۔
جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ پل صراط سے پہلے ہو گا، یہ موقف اکثر علمائے کرام کا ہے، اور واللہ اعلم یہی موقف زیادہ راجح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حوضِ کوثر پر پانی پینے کے لیے آنے والے کچھ لوگوں کو پکڑ کر جہنم میں پھینکا جائے گا، تو اگر حوضِ کوثر پل صراط کے بعد ہوتا تو یہ لوگ پل صراط عبور ہی نہیں کر سکتے تھے؛ کیونکہ یہ وہیں پر جہنم رسید ہو جاتے ، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔
اس گفتگو کے آخر میں ایک اہم ترین تنبیہ بہت ضروری ہے، یہ تنبیہ درج ذیل ہے:
یہ ضروری نہیں کہ جو شخص بھی امت محمدیہ سے تعلق رکھتا ہو گا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حوض اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک ہاتھوں سے پانی پینے کی سعادت حاصل کرے گا، بلکہ احادیث مبارکہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ اس امت کے کچھ لوگوں کو حوض سے پانی نہیں پینے دیا جائے گا بلکہ انہیں سختی کے ساتھ پیچھے دھکیل دیا جائے گا، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔
تو یہ کون لوگ ہوں گے جو حوضِ کوثر سے پانی پیے گے، اور کن لوگوں کو دھتکار دیا جائے گا؟
اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بڑا ہی شافی دیا ہے کہ اس کے بعد کسی عذر خواہ کا عذر باقی ہی نہیں رہتا، اور نہ ہی کوتاہ کے لیے کوئی حجت باقی رہتی ہے، چنانچہ صحیح مسلم: (367) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک بار قبرستان تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (السَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاحِقُونَ یعنی: مومنین کی قوم کے گھر والو! السلام علیکم، ان شاء اللہ ہم بھی تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ پھر فرمایا: میری خواہش تھی کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا ۔) صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ؟ آپ نے جواب دیا: (تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک دنیا میں نہیں آئے۔) اس پر انہوں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے، جو ابھی دنیا میں نہیں آئے ؟ تو آپ نے فرمایا: (بتاؤ! اگر کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان کسی کے سفید چہرے (اور ) سفید پاؤں والے گھوڑے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا؟) انہوں نے کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: (وہ وضو کی بنا پر روشن چہروں ، سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے اور میں حوض پر ان کا پیشرو ہوں گا، خبردار ! کچھ لوگ یقیناً میرے حوض سے پرے ہٹائے جائیں گے ، جیسے (کہیں اور کا) بھٹکا ہوا اونٹ (جو گلے کا حصہ نہیں ہوتا) پرے ہٹا دیا جاتا ہے ، میں ان کو آواز دوں گا، دیکھو! ادھر آ جاؤ۔ تو کہا جائے گا ، انہوں نے آپ کے بعد [احکامات الہیہ کو ] بدل دیا تھا۔ تو میں کہوں گا: دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔
اسی طرح ابو حازم کہتے ہیں کہ میں نے سہل کو روایت بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں حوض کوثر پر تم سے پہلے پہنچ کر تمہارا استقبال کروں گا جو حوضِ کوثر پہنچ گیا وہ اس سے پانی پئے گا اور جو اس کا پانی پی لے گا وہ اس کے بعد کبھی پیاسا نہیں ہو گا۔ میرے پاس ایسے لوگ بھی یقیناً آئیں گے جنہیں میں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ یا رکاوٹ ڈال دی جائے گی ۔
ابو حازم نے بیان کیا کہ نعمان بن ابی عیاش نے بھی سنا کہ میں ان سے یہ حدیث بیان کر رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ کیا تو نے سہل رضی اللہ عنہ سے اسی طرح یہ حدیث سنی تھی؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اسی طرح سنی تھی، لیکن ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اس میں یہ بھی بیان کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ( یہ لوگ میری امت میں سے ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس وقت کہا جائے گا کہ: آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا تبدیلیاں کر دی تھیں؟ میں کہوں گا کہ دوری ہو دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کر دی تھیں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6528) اور مسلم : (4243) نے روایت کیا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں ( قیامت کے دن ) اپنے حوض سے کچھ لوگوں کو اس طرح ہانک دوں گا جیسے اجنبی اونٹ حوض سے ہانک دیئے جاتے ہیں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2194) اور مسلم : (4257) نے روایت کیا ہے۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہمارے علمائے کرام -اللہ تعالی ان سب پر رحم فرمائے- کہتے ہیں: جو شخص بھی اللہ کے دین سے مرتد ہو گیا، یا دین میں کوئی بھی ایسا عمل شامل کیا جو اللہ کو پسند نہیں ہے، اور نہ ہی اس کام کی دین میں اجازت دی تو وہ شخص حوضِ کوثر سے دھتکار دیا جائے گا، اور اسے دور دھکیل دیا جائے گا۔ اور سب سے زیادہ اس شخص کو دھکیلا جائے گا جس نے مسلمانوں کی اجتماعیت کی مخالفت کی ہو گی، اور مسلمانوں کے راستے کو چھوڑ کر نیا راستہ بنایا ہو گا، مثلاً: خوارج اور ان کے تمام تر فرقے ، روافض اور ان کے تمام تر گمراہ ذیلی فرقے، اسی طرح معتزلہ اور ان کی روش پر چلنے والے تمام تر لوگ، ایسے ہی ظالم لوگ جنہوں نے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے، حق بات کو مٹایا، اہل حق کو قتل کیا، اہل حق کو ذلیل کرنے کی کوشش کی، اعلانیہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے، خلوت میں گناہوں سے دور نہ رہنے والے، بدعتی، اور ہوس پرست سمیت تمام گمراہ لوگوں کے ساتھ یہی ہو گا۔۔۔ ” ختم شد
التذكرة از علامہ قرطبی: ( 306 )
اس لیے مسلمان پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری لازم ہے، کسی بھی چیز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایات سے رو گردانی نہ کرے، اور یہ امید رکھے کہ اللہ تعالی اسے اس بابرکت حوض سے پانی پینے کا شرف عطا فرمائے گا۔ وگرنہ بصورت دیگر کتنی شرمندگی ہو گی اور کتنی ندامت اٹھانی پڑے گی کہ انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سے دھتکار دیا جائے، اور وہ بھی اس حالت میں کہ انسان کو اس وقت پیاس بھی نہایت شدت کے ساتھ لگی ہوئی ہو گی کہ انسان کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہو گا، ایسے میں ٹھنڈا اور میٹھا پانی سامنے ہو اور پینے سے روک دیا جائے ، پھر اس پر مستزاد یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا بھی ملے کہ ان کے لیے دوری ہو، اس طرح تو حسرت و ندامت کی انتہا ہو جائے گی، ذرا تصور میں لا کر غور و فکر کریں! کیا برداشت کر پائیں گے؟ اور اس وقت حالت کیا ہو گی جب یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے خود ہمارے ساتھ ہو؟! اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ: اللہ تعالی ہم پر اور تمام مسلمان بھائیوں پر اپنا خصوص کرم فرمائے، اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر چلتے ہوئے بدعات سے بچنے کی توفیق دے، اور ہمیں گناہوں سے دور رہنے کی ہمت و طاقت عطا فرمائے۔ آمین
تفصیلات کے لیے آپ مطالعہ کریں:
( القيامة الكبرى 257 – 262 ) اور ( الجنة والنار 166 ، 167 ) یہ دونوں کتابیں الشیخ عمر اشقر کی ہیں، اور اسی طرح : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی فتح الباری: (11 / 466 ) کا بھی مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم