اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اپنی یا کسی دوسرے کی تھوک نگلنے کا حکم

سوال

انسان کا اپنی تھوک نگلنے کا کیا حکم ہے میں رمضان میں اکثر لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ نگلنے سے بچنے کےلیے بہت زيادہ تھوکتے رہتے ہیں ، اورخاص کروضوء میں کلی کرنے کے بعد ، اوراس تھوک کا کیا حکم ہے اگریہ تھوک کسی دوسرے مثلابیوی کی ہو ؟ہمیں اس کے بارہ میں فتوی دیکر عنداللہ ماجور ہوں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

اسلام کے احکام وقوانین اورشریعت اسلامیہ آسانی وسہولت اورغیرعادی مشقت وتکلیف سے احتراز پرمبنی ہیں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی روزوں کی آیات میں ہی یہ فرماتے ہیں :

اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کانہیں البقرۃ ( 185 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

اللہ تعالی تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا تمہیں پاک کرنے کاارادہ ہے ، اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ارادہ ہے تا کہ تم شکر ادا کرتے رہو المائدۃ ( 6 ) ۔

اورایک مقام پر ارشاد باری تعالی ہے :

اورتم پر دین کے بارہ میں کوئي تنگي نہیں ڈالی الحج ( 78 ) ۔

لھذا جس میں مشقت ہو اوراس سے عادتا بچناممکن نہ ہوتووہ روزہ پر کچھ اثرانداز نہیں ہوتا اورانسان کا روزے کی حالت میں تھوک نگلنا بھی اس ميں شامل ہے ۔

ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

فصل : اورجس چيز سے بچنا اوراحتراز کرنا ممکن نہ ہو مثلا تھوک نگلنا اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اس لیے کہ اس سے بچنا بہت ہی شاق ہے لھذا یہ گردوغباراورآٹا چھانتے وقت اڑنے والے آٹے کےمشابہ ہے ، لھذا اگر اس نے اسے جمع کرکے قصدا بھی نگلا تواس سے روزہ نہيں ٹوٹے گا ۔

اس لیے کہ اس کے پیٹ میں معدہ سے پہنچ رہی ہے لھذا اگروہ تھوک جمع نہيں کرتا اوراسے قصدا نگلتا ہے تواس سے روزہ نہيں ٹوٹتالھذا جمع کر کےنگلنا بھی اسی کے مشابہ ہے ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 3 / 16 ) ۔

اورحاشیہ قلیونی میں ہے :

( اسی طرح یہ بھی ہے کہ اگر کسی شخص نے زبان نکالی اوراس پرتھوک بھی ہو پھر اس نے زبان اندر کرکے اس پرجوکچھ تھا نگل لیا توصحیح قول کے مطابق اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ، اس لیے کہ زبان اندر ہی جتنا بھی اسے الٹ پلٹ کرے تواس جس پراس کا معدہ ہے اس سے جدا نہيں ہوگا ) دیکھیں حاشیۃ قلیونی ( 2 / 73 ) ۔

دوم :

کلی کرنے کے بعد روزہ دار کے لیے کیا واجب ہے :

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " المجموع " میں کہتے ہیں :

متولی وغیرہ کا کہنا ہے : جب روزہ دار کلی کرے تواسے پانی لازما باہر نکالنا ہوگا ، لیکن اس پر یہ لازم نہيں کہ وہ اندر سے منہ کو کپڑے وغیرہ سے خشک کرتا پھرے ، اس میں کوئي خلاف نہيں ۔ اھـ

دیکھیں : المجموع ( 6 / 327 ) ۔

اورشیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

( اگرکوئي شخص اذان فجر کے وقت پانی پیۓ تواس پرتھوکنا واجب نہيں ، اس لیے کہ ہمارے علم کے مطابق صحابہ کرام سے یہ ثابت نہيں کہ جب کوئي طلوع فجر کے وقت پانی پیۓ تو پانی کے ذائقہ کو ختم کرنے کے لیے تھوکے ، بلکہ یہ اس کے لیے معاف ہے ) شرح الممتع ( 6 / 428 ) ۔

اورجولوگ یہ کہتے ہیں کہ کلی کرنے کے بعد تھوکا جائے وہ بھی کلی کرنے والے سے یہ مطالبہ نہيں کرتے کہ پانی پھنکنے کے بعد ایک بارسے زائد تھوکا جائے ، تھوکنے کی شرط اس لیے لگاتے ہیں کہ تھوک میں پانی مل جاتا ہے لھذا صرف پانی کے اخراج سے ہی نہیں نکل جاتا ، اوروہ تھوک میں مبالغہ کی بھی شرط نہيں لگاتے ، اس لیے کہ اس کے بعد توصرف تری اوررطوبت ہی باقی بچتی ہے جس سے احتراز ممکن نہيں ۔

دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 28 / 63 ) ۔

لیکن اگر تھوک میں اس کے علاوہ کوئي ایسی چيزمل جائے جس سے احتراز اوربچنا ممکن ہو تواسے باہر پھینکنا لازم ہے ، پھر اس کے بعد اگراس کے کوئي آثار یا خوشبواور ذائقہ وغیرہ باقی رہتا ہے تو اس سے کوئي نقصان نہیں مثلا سحری کے بعد منہ میں کھانے کے کچھ ذرات کا باقی بچنا ، یا پھر مسواک کے ذرات ، اورمسوڑھوں سے نکلنے والا خون وغیرہ ۔

آپ اس کی مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذيل سوال نمبروں کے جوابات کا مطالعہ ضرور کریں :

( 37745 ) اور ( 37937 ) اور ( 12597 ) کے جوابات دیکھیں ۔

لھذا اس بنا پر وہ لوگ جورمضان المبارک میں کثرت سے تھوکتے ہیں ہمیں تو ان کے ایساکرنے میں کوئي وجہ نظر نہيں آتی ، صرف یہ نظرآتا ہے کہ وہ ایسی چيز سے احتراز کرنا اوربچنا چاہتے ہیں جس سے احتراز مشروع ہی نہيں ، جس کی بنا پر انہیں روزے میں مشقت اورپیاس اورمنہ خشک ہونے جیسی علتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ، اوراس کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ تنگي بھی پیدا ہوگي ، اورخاص کر جب وہ ایسی جگہوں میں ہوں جہاں پرتھوکنا ہی ممکن نہ ہو یا پھر ان کے پاس کو ٹشو پیپر وغیرہ بھی نہ ہوں ۔

اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسا شخص مسجد میں قرآن مجید کی تلاوت اور ذکرو اذکار کے لیے بھی زيادہ دیر نہیں بیٹھ سکتا بلکہ وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ جائے گا جس کی بنا پر وہ اس ماہ مبارک کے فضائل سے ہی محروم رہے گا ۔

سوم :

رہا مسئلہ بیوی کی تھوک نگلنے کے متعلق تواس کے بارہ میں ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

یا اس نے کسی دوسرے کی تھوک نگل لی توروزہ ٹوٹ جائے گا ، اس لیے کہ اس نے اپنے منہ کے علاوہ کسی اورکی تھوک نگلی ہے تویہ اسی طرح ہوا کہ کوئي اور چيز نگل لی جائے ۔

اگریہ کہا جائے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ان سے بوس وکنار کرتے تھے اوران کی زبان بھی چوستے تھے ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2386 ) ۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہيں گے کہ ابوداود رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے کہ انہوں نے اس حدیث کے بارہ میں کہا ہے کہ یہ سند صحیح نہيں ۔

حدیث میں ( زبان کوچوستے تھے ) کے الفاظ کے زیادہ ہونے کو کچھ نے ضعیف قرار دیا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ضعیف سنن ابوداود میں بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔

اورابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ بالفرض اگر یہ حدیث صحیح ہوتو اس کی دو توجیہیں ہونگی :

اول : یہ دونوں مسئلے ایک دوسرے سے مرتبط ہی نہیں بلکہ غیر مرتبط اورمختلف ہیں ان کا کہنا ہے : ( اس کا بھی جواز ہے کہ روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور اس کے علاوہ دوسرے دنوں میں زبان چوستے تھے ) ۔

دوم : اس حدیث میں تھوک نگلنے کی دلیل نہیں پائي جاتی ، ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ( یہ ہوسکتا ہے کہ زبان چوستے ہوں لیکن پھر وہ اسے نگلتے نہ ہوں ، اوراس لیے کہ یہ بھی ثابت نہيں کہ ان کی زبان پر پائي جانے والی تری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں گئي ہو ) دیکھیں المغنی ( 3 / 17 ) ۔

تواس بنا پر اگر خاوند اوربیوی دونوں میں سے کسی ایک نے دوسرے کی تھوک نہ نگلی ہو تواس سے روزہ فاسد نہيں ہوگا ۔

لیکن خاوند یا بیوی کا دوسرے کی زبان چوسنا جماع کے اسباب میں سے باقی رہے گا ، اگرکسی کو ڈر ہوکہ بوس وکنار اور جماع کے دوسرے اسباب کی بنا پر اسے انزال ہوسکتا ہے تواس کے حق میں ایسا کرنا حرام ہوگا ، لیکن اگر اسے اپنے آپ کنٹرول ہو تو صحیح یہی ہے کہ اس کے ایسا کرنا جائز ہے اوراس میں کوئی کراہت نہيں ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوس وکنار کرتے تھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1927 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1106 ) دیکھیں الشرح الممتع ( 6 / 433 ) کچھ کمی بیشی کے ساتھ ۔

لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے روزے کوایسی چيزوں سے محفوظ رکھے جس کی بنا پر اس کے روزے کے اجروثواب میں نقص اورکمی ہونے کا اندیشہ ہو ، اورخاص کرجب یہ کام رمضان کی ہر رات میں کرنے جائز ہوں ۔

آپ مزید تفصیلی معلومات کے لیے سوال نمبر ( 20032 ) اور ( 14315 ) کے جوابات کا مطالعہ کریں ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب