الحمد للہ.
اس طرح كى كمپنى كے متعلق حكم تو اس وقت ہى بيان كيا جا سكتا ہے جب يہ واضح ہو جائے كہ خريداروں كا مقصد كيا ہے، يہ فروخت كرنے اور دوسروں كو دھوكہ دينے كا طريقہ ہے، جس پر كمپنى كے نظام كا تعارف كرانے كے ليے پرنٹ شدہ اوراق كے ذريعہ عمل كيا جاتا ہے.
مسئولہ مسئلہ پر غور و فكر اور بعض اقتصادى ماہرين، اور كمپنى كے بعض نمائندوں سے بات چيت كرنے كے بعد درج ذيل واضح ہوا ہے:
1 - كمپنى نے اپنے كام كا آغاز ايك شرعى علوم اوراس سےملحق علمو پر مشتمل سى ڈى تيار كر كے كيا، اس كو ايك نمونہ شمار كرتے ہوئے اس كے مطابق جواب ہو گا، كيونكہ كمپنى اسے فروخت كر رہى ہے، اس ليے كہ اگرچہ وہ سامان جس كى ماركيٹنگ كمپنى كر رہى ہے وہ مختلف ہے، ليكن يہ معاملہ كى حقيقت كو نہيں بدل سكتا.
2 - كمپنى يہ سى ڈى پانچ سو ريال ميں فروخت كر رہى ہے، حالانكہ سامان اور طلب كى حقيقت كے اعتبار سے اس طرح كے موضوع اور كوالٹى كى سى ڈى كى قيمت اس سے كئى گنا كم ہے.
3 – كمپنى كى جانب سے بدلہ دينے كے نظام كے اعلان ميں فروخت كردہ سى ڈى كا كوئى ذكر نہيں كيا گيا، اور نہ ہى اس ميں موجود علمى مواد اور اس كے فوائد و اہميت اور خريداروں كى ضرورت كا ذكر ہے، بلكہ سارى كلام تو مالى بدلہ اور اس كے نظام كےگرد ہى گھومتى ہے.
4 - سارے يا اكثرخريدار جو كمپنى ميں آتے ہيں وہ بدلہ كے نظام كے متعلق ہى دريافت كرتے ہيں، اور وہ سى ڈى اور اس ميں علمى مواد كے متعلق كچھ نہيں پوچھتے ـ چہ جائيكہ اس كا كسى اور چيز كے ساتھ مقارنہ اور موازنہ كريں ـ حالانكہ سى ڈى كى ادا كردہ قيمت بہت بڑى ( پانچ سو ريال ) ہے، عام طور پر خريدار كو ايسى سى ڈى كے ليے اتنى بڑى رقم خرچ كرنے سے منع كيا جاتا ہے جس كے متعلق اسے علم ہى نہ ہو كہ اس ميں كيا ہے، اور نہ ہى وہ اس كے متعلق پوچھتا ہے، بلكہ اسے اس سے كوئى سروكار نہيں كہ اس سى ڈى ميں ہے كيا.
5 - ہم نے كچھ لوگوں سے سنا ہے كہ انہوں نے بہت سارى سى ڈيز خريدى، بلكہ بعض نے تو دو لاكھ ريال سے بھى زيادہ، اور اس سے بھى زيادہ ہم نے سنا ہے، تو وہ اتنى زيادہ تعداد ميں سى ڈيز كيا كرتے ہيں ؟!
حالانكہ اگر بالفعل اسے ضرورت بھى ہو تو عام طور پر تو انسان ايك سى ڈي سے زيادہ كا محتاج ہى نہيں.
6 - بعض سى خريداروں كے پاس تو كمپيوٹر بھى نہيں ہے، بلكہ ان ميں سے كچھ تو ايسے بھى ہيں جو شرعى علم كا اہتمام بھى نہيں كرتے، اور نہ ہى انہيں سى ڈى ميں موجود مواد كى ضرورت ہے، بلكہ ان ميں ايسے افراد بھى ہيں جنہيں عربى زبان آتى ہى نہيں، بلكہ ايسے بھى ہيں اصل ميں مسلمان ہى نہيں !!
تو پھر يہ لوگ اس سى ڈى كو خريدنے كى طرف كيوں لپك رہے ہيں، حالانكہ وہ اپنى اساسى ضروريات كى اشياء جو اس سى ڈيز سے بھى زياد اہم اور فائدہ مند ہيں وہ نہيں خريدتے ؟
اور اگر فرض كريں كہ وہ ان سى ڈيز كے محتاج ہيں اور وہ ان سے فائدہ حاصل كرينگے، تو وہ ان سى ڈيز سے اعراض كر رہے ہيں جو ان كے ليے فائدہ مند تھيں اور اس كى قيمت بھى اس سى ڈي سے بہت كم ہے جس كى طرف وہ لپك رہے ہيں !!
7 - يہ ثابت ہوا ہے كہ ان خريداروں ميں سے تو كچھ نے وہ سى ڈيز خريدنے كے بعد كمپنى سے خريدارى كى رسيد حاصل كر كے باہر آتے ہى كمپنى كے آفس كے باہر ہى پھينك ديں !!!
8 - جو رقم بدلے ميں واپس كرنے كا وعدہ كيا گيا ہے وہ سى ڈيز كى قيمت سے كئى گنا زائد ہے؛ اس بنا پر ہم يہ نہيں كہہ سكتے كہ يہ فروخت كردہ سامان كى قيمت سے ڈسكاؤنٹ ہے.
9 - جس رقم كى واپسى كا وعدہ كيا گيا ہے وہ سامان كى ادا كردہ قيمت سے كئى گنا زائد ہے، قيمت ( 500 ريال ) ہے، پھر ايك ماہ سے تين ماہ كى مدت ميں خريدار كو ( 600 ) ريال، اور ايك سال سے تين سال كى مدت ميں ( 42500 ) ريال ديے جائينگے، جو كہ ( 85 ) سى ڈيز كى قيمت كے برابر ہے، اور انہوں نے يہ صراحت كى ہے كہ خريدار اس وقت تك دوسرا ہديہ لينے كا مستحق نہيں جب تك اس كے نيچے ( 340 ) ماركيٹنگ كرنے والے نہ ہوں جو اس بات كى دليل ہے كہ بعد ميں خريدنے والوں كے ليے دوسرے ہديہ كى مدت بہت زيادہ ہے، بلكہ بعض كے ليے تو تقريبا يہ حاصل كرنا محال ہى ہوگا، خاص كر يہ احتمال ہے كہ كمپنى ہى بند ہو جائے، يا پھر كمپنى اس كام كو اچانك بند كر دے.
10 - كمپنى خريدار كے ليے لازم كرتى ہے كہ وہ اس اقرار نامہ پر دستخط كرے كہ اسے كوئى بھى مبلغ اور رقم لينے كا حق نہيں، اور ان شروط پر دستخط كرنے سے پہلے سى ڈى فروخت ہى نہيں كى جاتى.
11 - يہ ديكھتے ہوئے كہ اكثر خريداروں كا مقصد سى ڈى نہيں، اور نہ ہى وہ اصل ميں سى ڈى چاہتے ہيں، كمپنى نے كچھ عرصہ بعد ايك نئى سوچ اور فكر بنائى كہ سى ڈى كے خريداروں ميں سے جسے سى ڈى كى ضرورت نہيں اور وہ اس كى رغبت نہيں ركھتا تو يہ سى ڈيز ضرورتمندوں ميں بطور ہديہ يا فنڈ تقسيم كر دى جائيں، اور يہ كسى معاملہ كے حكم كو تبديل نہيں كرتا، كيونكہ عقد اور معاہدوں ميں معتبر تو حقائق ہوتے ہيں.
يہ سارے اسباب جمع ہو كر ہميں يہ يقين دلاتى ہيں كہ ـ اگر سارے نہيں تو ـ اس معاملہ ميں شامل ہونے والے اكثر لوگوں كا مقصد اس رقم كى حاصل كرنا ہے جس كا ان سے وعدہ كيا جا رہا ہے، نہ كہ سامان سے فائدہ حاصل كرنا، اور حقيقت ميں يہ معاملہ اس طرح ہے: بہت زيادہ ادھار نقدى كو قليل نقد رقم كے ساتھ خريدنا ہے، جو اس معاملہ ميں حرام داخل كرتى ہے، يا تو حيلہ سازى كے اعتبار سے ـ اگرچہ ظاہرى معاملہ سے حرام تك جانے كا مقصد ہے ـ يا پھر اس اعتبار سے كہ جو بھى حرام كى طرف لے جائے تو وہ بھى حرام ہے، اور برائى كى طرف لے جانے والى راہ كو روكنا واجب ہے، اور ان دروازوں كو بند كرنا جن سے لوگ حرام ميں پڑ جائيں.
اس ليے شريعت اسلاميہ نے بہت سارے معاملات اور نكاح جس كے ظاہر سليم العقد ہيں مثلا بيع العينہ ( سودى بيع ) اور نكاح حلالہ وغيرہ كو ممنوع قرار ديا ہے، اور علماء كرام نے كتب فقہ ميں حيلہ بازى كى بہت سارى صورتيں بيان كى ہيں.
اس معاملہ ميں اہم ممنوعہ اشياء كو درج ذيل نقاط ميں بيان كيا جا سكتا ہے:
1 - يہ معاملہ ـ كم از كم خريدار كى جانب سے ـ سود پر مشتمل ہے، اگر تو وہ نقدى يعنى رقم چاہتا ہے نہ كہ سامان، تو اس نے پانچ سو ريال اس ليے ديے ہيں كہ تقريبا ايك ماہ بعد چھ سو ريال حاصل كر سكے، اور تين برسوں كے بعد ( 42500 ) ريال حاصل كر سكے، تو اس ميں دو قسم كا سود شامل ہو گا، ايك تو زيادہ ہونے كى بنا پر ربا الفضل، اور ادھار كى بنا پر پر ربا النسيئۃ.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى نے خريد و فروخت حلال كى ہے، اور سود كو حرام كيا ہے البقرۃ ( 275 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور باقى مانندہ سود چھوڑ دو اگر تم مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كروگے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ جنگ كرنے كے ليے تيار ہو جاؤ البقرۃ ( 278 - 279 ).
2 - يہ قمار بازى اور جوے پر مشتمل ہے، كيونكہ اس ميں شريك ہونے والے نے حقيقت ميں مال ادا كيا ہے، يا پھر غالبا اس نے مال اس ليے ديا ہے كہ وہ رقم حاصل كر سكے جسے وہ بدلہ يا ہبہ كا نام ديتے ہيں، اور وہ رقم ہو سكتا ہے اسےملے يا نہ ملے ـ اس بنا پر كہ كمپنى اس كے سامنے يہ شرط ركھى ہے كہ يہ كوئى لازمى وعدہ نہيں بلكہ يہ تو صرف اس كى جانب سے ہديہ وغيرہ ہو گا!!! اور يہى قماربازى اور جوے كى حقيقت ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوئے كے ذريعہ تمہارے آپس ميں ميں عدوات اور بغض پيدا كر دے اور تمہيں اللہ تعالى كى ياد اور نماز سے روك دے تو اب بھى باز آ جاؤالمآئدۃ ( 90 ).
اور جوا دھوكے كى ايك قسم ہے، صحيح حديث سے ثابت ہے كہ:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دھوكہ كى بيع سے منع فرمايا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1513 ).
اور غرر يعنى دھوكہ يہ ہے كہ: جس كے حصول ميں شك ہو، يا پھر جس سے مقصود يہ ہو كہ اسے پتہ نہيں آيا وہ اسے ملے گا يا نہيں.
شرح حدود ابن عرفۃ ( 1 / 350 ).
3 - يہ دھوكہ و فراڈ اور لوگوں كو مال كا لالچ دينے پر مشتمل ہے، پھر انہيں يہ كہا جاتا ہے كہ:
ہم پر تمہارى جانب سے كوئى چيز لازم نہيں، يہ اس دروازے كو كھولنا ہے كہ خريداروں كو بدلہ دينے كا وعدہ كر كے ان سے كئى ملين ريال جمع كر ليے جائيں اور پھر ان ميں اكثر كو كچھ بھى نہ ديا جائے، يا پھر جو دے اسے ديا جائے، اور جو تاخير كرے اسے تاخير سے ديا جائے، اور جو جلد دے اسے جلد ديا جائے، كسى بھى معلوم اصول و ضوابط اور شروط كے بغير، اور قانونى چارہ جوئى كے دائرہ كار سے باہر رہتے ہوئے.
4 - يہ لوگوں كا ناحق اور باطل طريقہ سے مال كھانے پر مشتمل ہے ؟!
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم اپنا مال آپس ميں باطل كے ساتھ مت كھاؤ، مگر يہ كہ وہ تمہارى آپس كى خوشى اور رضامندى سے تجارت كے ساتھ ہو النساء ( 29 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہارى عزتيں تم پر حرام ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1739 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1679 ).
خريدار سے قبل بائع يہ جانتا ہے كہ كوئى بھى حقوق كے عدم مطالبہ كے معاہدہ پر دستخط كرنا ايسا امر ہے جو حقيقى رضا سے نہيں ہوا، جبكہ اس معاہدہ پر دستخط كرنے والے كے نفس ميں طمع و لالچ موجود ہے، اور اس ميں كمپنى كے معاہدوں كے متعلق كچھ نہ كچھ امانت كے ساتھ بدلہ اور ہديہ جات تقسيم كرنے اور كمپنى بند نہ ہونے كا بھروسہ پايا جاتا ہے، جسے خريدار يقينى وعدہ شمار كرتا ہے.
سوال نمبر ( 40263 ) كے جواب ميں بزنس اور اس جيسى دوسرى كمپنيوں كے دھوكہ و فراڈ پر مشتمل معاملات كے متعلق بيان ہو چكا ہے، اس ميں اس طرح كے معاملات كے اسباب اور لوگوں كا اس كى جانب لپكنے كا بھى ذكر ہے، اور اسىطرح گيارہ عام شرعى قاعدے اور اصول بھى بيان ہوئے ہيں جو اس طرح كے معاملات كے شرعى حكم اور اس سے دور رہنے كے متعلق نفس كےممد و معاون ہيں آپ اس جواب كا مطالعہ كريں.
آخر ميں يہ عرض كرتے ہيں كہ: مسلمان كو چاہيے كہ وہ مباح تجارتى اور سرمايہ كارى منصوبہ جات پر خوش ہو اور ان كى كاميابى كا متمنى ہو اور اس ميں مزيد وسعت اور منافع كى اميد ركھے، اور يہ اپنے دوسرے مسلمان بھائيوں كى خير و بھلائى سےمحبت ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اپنے بھائى كے ليے بھى وہى پسند كرو جو اپنے ليے پسند كرتے ہو "
مسند احمد حديث نمبر ( 16219 ) اس حديث كى اصل بخارى اور مسلم ميں بھى ہے.
اور اگر يہ منصوبہ جات اشياء پروڈكٹ تيار كرنے كے ہوں، نہ كہ كھپت كے تو يہ افضل و زيادہ بہتر ہے، كيونكہ يہ مسلمان معاشرے كى تقويت كا باعث بنتے ہيں، ليكن اسكا يہ تقاضا نہيں كہ ان نئے معاملات ميں پائے جانے والى شرعى مخالفات كو ہى بيان نہ كيا جائے ـ يہ مخالفات بعض ان نظاموں كو لينے اور استعمال كرنے كا نتيجہ ہيں جو حلال و حرام كا خيال نہيں ركھتے ـ اور يہ اس ليے كہ لوگوں كو حرام كمائى اور حرام مال يا حرام عطيہ وغيرہ سے دور ركھا جائے.
اس كمپنى كے اعمال كے متعلق يہ واضح ہوا ہے، اور ميں كمپنى كے مالكان سے محبت اور شفقت كرتے ہوئے انہيں نصيحت كرتا ہوں كہ ان كى كمپنى كے اعمال كى پلاننگ موجود ہے، جس ميں وسعت اور بہت سارے لوگ شامل ہيں، اس كے ساتھ عمل كے اسلوب ميں ايسى اشياء بھى ہيں جن پر شك كيا جا سكتا ہے، تو وہ اپنى اس كمپنى كے معاملہ كو كسى علمى ادارے كے سامنے پيش كريں تا كہ وہ اس كے متعلق فتوى جارى كريں، تو اس طرح كمپنى كے مالكان اور ذمہ داران برى الذمہ ہو سكيں اور جانبى اختلافات كو ختم كر سكيں، اس سلسلہ ميں ان شاء اللہ مستقل فتوى كميٹى كافى ہے.
اور اپنے مسلمان بھائيوں كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ حلال اور پاكيزہ كھائيں اور حرام چاہے جتنا بھى زيادہ اور ديدہ زيب ہو اس سے اجتناب كريں اور دور رہيں، كيونكہ جو جسم بھى حرام پر پلتا ہے وہ جہنم كى آگ كے زيادہ قابل اور لائق ہے، اور پھر يہ ياد ركھيں جو كوئى بھى كسى چيز كو اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا فرماتا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ اس نے جو ہميں حلال روزى دى ہے اس پر قناعت كى توفيق دے، اور اپنے حلال كے ساتھ ہميں حرام كردہ سے بچا كر ركھے، اور ہميں حق كو حق ديكھنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور اپنى اتباع و پيروى كرنے كى توفيق دے، اور ہميں گمراہيوں اور خواہشات اور شبہات و شہوات كے فتنوں سے بھى محفوظ ركھے.
اللہ تعالى ہى زيادہ علم ركھنے والا ہے.
جواب كى تكميل كے ليے ہم ذيل ميں كچھ مناقشات و اعتراضات درج كرتے ہيں جنہيں ہم نے جواب كى طوالت دور كرنے كے ليے عليحدہ كيا ہے:
كوئى قائل يہ بھى كہہ سكتا ہے:
كيا كمپنى كےليے اپنى پروڈكٹ كى ترويج اور معروف اور ماركيٹنگ زيادہ كرنے كے ليے خريداروں كو كچھ معلوم انعامات تقسيم كرنے جائز نہيں ؟ تو جو دوسروں كے ليے مباح ہے وہ كمپنى پر حرام كيوں ہيں ؟
اس كا جواب يہ ہے:
ايسے سامان كى خريدارى جس پر انعامات ديے جائيں اصل ميں ہمارے علماء كرام كا اختلاف ہے، بعض علماء كرام تو اسے مطلقا حرام كہتے ہيں، جن ميں شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور مستقل فتوى كميٹى كے كئى ايك فتاوى جات شامل ہيں، اس كے كئى ايك اسباب ہيں جن ميں ايك سبب يہ بھى ہے كہ اس سے دوسرے فروخت كرنے والے تاجروں كے دلوں ميں كينہ و بغض پيدا ہوتا ہے.
اور علماء نے انعامى مقابلہ كى ممانعت كا فتوى جارى كيا ہے كيونكہ اسميں جوا اور قمار بازى پائى جاتى ہے، اور لوگوں كو انعام كے لالچ ميں ايسى اشياء خريدنے كى رغبت دلائى جاتى جس كى انہيں ضرورت بھى نہيں ہوتى اس فتوى كو بالتفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22862 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور ہمارے كچھ علماء نے اس كے جواز كا فتوى ديا ہے ليكن اس كو كچھ شروط سےمقيد كيا ہے ان ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ شامل ہيں ان كا كہنا ہے:
" كمپنياں اپنا مال خريدنے والوں كے ليے انعام ركھتى ہيں، تو اس سلسلہ ميں ہم يہ كہينگے: جب دو شرطيں پائى جائيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں:
پہلى شرط:
قيمت ـ يعنى سامان كى قيمت ـ اس كى حقيقى قيمت ہو، يعنى انعام كى بنا پر اس كى قيمت ميں اضافہ نہ كيا گيا ہو، اگر انعام كى خاطر قيمت بڑھا دى گئى ہو يہ قمار بازى اور جوا ہے حلال نہيں.
دوسرى شرط:
انسان انعام حاصل كرنے كے ليے سامان نہ خريدے، اگر اس نے صرف انعام حاصل كرنے كى غرض سے سامان خريدا نہ كہ اس كى ضرورت كى بنا پر تو يہ مال ضائع كرنے كے مترادف ہو گا، ہم نے سنا ہے كہ بعض لوگ دودھ يا لسى كا ڈبہ خريدتے ہيں، انہيں اس كى ضرورت تو نہيں ہوتى ليكن وہ اس ليے خريدتے ہيں كہ ہو سكتا ہے اسے انعام مل جائے، تو آپ ديكھتے ہيں كہ اسے بازار يا پھر گھر كے ايك كونے ميں انڈيل ديتا ہے، تو يہ جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں مال ضائع ہوتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال ضائع كرنے سے منع فرمايا ہے.
ديكھيں: اسئلۃ الباب المفتوح نمبر ( 1162 ).
جس مسئلہ كے متعلق دريافت كيا گيا ہے اس ميں يہ دونوں شرطيں مفقود ہيں، كيونكہ سى ڈى كى قيمت اس كى اصل قيمت سے بہت زيادہ ركھى گئى ہے جيسا كہ اوپر بيان كيا جا چكا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ اگر وہى سى ڈى بغير كسى انعامى مقابلے والے نظام كے ماركيٹ ميں پيش كى جائے تو اس قيمت ميں كوئى بھى نہ خريدے، اور نہ ہى لوگ اس سى ڈى كو اتنى بڑى تعداد ميں خريديں.
اور دوسرى شرط كا نہ پايا جانا تو اسے بيان كرنے سے بھى واضح ہے، كيونكہ بہت سارے خريدار تو اس سى ڈى ميں موجود مضامين كو اہم نہيں سمجھتے، اور بعض تو اصل ميں عربى جانتے ہى نہيں، اور بعض اس سى ڈى كو خريد كر كمپنى سے نكلتے ہى پھينك ديتے ہيں، اور بعض يہ سى ڈى سينكڑوں بلكہ ہزاروں كى تعداد ميں خريدتے ہيں جس سے ديكھنے والے كو يہ يقين ہو جاتا ہے كہ يہ لوگ مال چاہتے ہيں نہ كہ سى ڈى، وگرنہ يہ لوگ ماركيٹ ميں كئى برس سے موجود اس طرح كى كم قيمت پر دستياب سى ڈى كيوں نہيں خريدتے ؟! اور اگر كوئى سى ڈى چاہتا بھى ہو تو يہ بہت نادر ہے، اور نادر چيز پر احكام كى بنا نہيں ہوتى.
اور يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ سدذرائع كے سبب سے حرمت ميں يہ شرط نہيں لگائى جاتى كہ لين دين كرنے والے حرام كا قصد كريں؛ بلكہ عادت ميں اس كا كثرت سے اس كا قصد ہى كافى ہے، يہ اس ليے كہ غالبا فى نفسہ مقصد منضبط نہيں ہوتا، جبكہ يہ باطنى امور ميں سے ہے جس كا اعتبار مشكل ہے؛ چنانچہ قصد كے گمان كا اعتبار كيا گيا ہے اگرچہ اس كا پيچھے رہنا صحيح ہو، يعنى واقعہ نہ ہونا "
اس كى وضاحت كے ليے ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 148 ) اور اغاثۃ اللھفان ( 1 / 376 ) اور الموافقات للشاطبى ( 2 / 361 ).
يہ سب كچھ اس كى دليل ہے كہ يہ لوگ نقدى چاہتے ہيں، اور معاہدہ كى صورت ميں جتنى بھى تعديل كر لى جائے پھر يہ نقد كى نقد كے ساتھ خريدارى ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حرام اشياء كے حقائق و مقاصد كے موجود ہوتے ہوئے اس كى صورت اور نام جتنے بھى تبديل كر ليے جائيں يہ اس خرابى و فساد ميں اور بھى زيادتى كا باعث ہيں جس كى بنا پر وہ حرام كى گئى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اس ميں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو دھوكہ دينے كى بھى كوشش ہے، اور اس كى شريعت و دين ميں مكر و فريب اور دھوكہ و نفاق كى كچھ نسبت ہے، اور يہ كہ كوئى چيز اس كى خرابى و فساد كى بنا پر حرام كى جاتى ہے، اور اس سے بھى بڑى كى بنا پر اسے مباح كر رہا ہے.
اسى ليے ايوب السختيانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
وہ اللہ تعالى كو اس طرح دھوكہ ديتے ہيں جس طرح بچوں كو دھوكہ ديا جاتا ہے.
اور يہ بھى كہا جا سكتا ہے:
كمپنى كا اپنى اشياء اور پروڈكٹ فروخت كرنے كے ذريعہ سود تك پہنچنا نہيں، بلكہ ان اشياء كى ماركيٹنگ ہے.
تو اس كا جواب يہ ہے:
جو مسلمان تجارتى امور سرانجام دے اور اسے علم ہو كہ اس كے گاہك كا خريدارى سے حرام مقصد ركھتے ہيں تو اس كا حكم كيا ہو گا، مثلا جو شخص انگور يا اسلحہ فروخت كرتا ہے، اور اسے علم ہو كہ اس كے اكثر خريدار اسے حرام ميں استعمال كرتے ہيں ؟
تو اس كا جواب يہ ہے:
يہ حرام ہے، جيسا كہ اہل علم نے بيان كيا ہے "
ديكھيں: المغنى ( 4 / 155 ) اور الفتاوى الكبرى ( 2 / 239 ).
اور يہ بھى كہا جا سكتا ہے:
كمپنى نے خريداروں كى جانب سے سى ڈى صدقہ كرنے كا ذمہ بھى لے ركھا ہے جو خريدار سى ڈى نہيں چاہتے ان كى جانب سے ضرورتمندوں كو تقسيم كر دى جائيگى.
تو انہيں يہ جواب ديا جائيگا:
لوگوں كو خالص صدقہ كى دعوت كيوں نہيں دى جاتى، اور ان كى نيتوں كو دنياوى فائدوں كے مقاصد كے ساتھ پراگندہ نہ كيا جائے، سامان سے چھٹكارا پانے كے ليے اسے صدقہ بنا ديا جاتا ہے، تو اس حالت ميں اجر كيا ہو گا ؟
شيخ ابن باز رحمہ اللہ ايسے انعامى مقابلہ كے حرام ہونے كا فتوى ہے جس ميں ادا كردہ صدقہ پر شامل ہو، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 11341 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اسى طرح تقسيم كرنے والوں كو يہ بھى كہا جائيگا كہ اگر تم اس سى ڈيز ميں پائے جانے والے مادہ كومد نظر ركھتے ہوئے سى ڈى كو صدقہ كرنے كى حرص ركھتے ہو تم اس سى ڈى كى كاپى كرا كر تقسيم كر سكتے ہو، كيونكہ كمپنى اس سے منع نہيں كرتى، يا پھر سستى اور كم قيمت والى زيادہ فائدہ مند سى ڈيز صدقہ كر سكتے ہو جو ان سى ڈيز سے زيادہ ہونگى.
اور يہ بھى كہا جائيگا كہ:
سى ڈى اس حقيقتا ( 500 ) ريال كى رقم كے برابر ہے، اگر انفرادى حقوق ملكيت كے خلاف زيادتى نہ كى جائے، تو اس كا جواب يہ ہے:
اول:
ماركيٹ كى گردش ہى فى الواقع سامان كى قيمت كى متعين كرتى ہے، اور اسے تيار كرنے كى كوشش متعين نہيں كرتى، يہ تو مانگ اور پيش كرنے كى حركت كے حساب سے ہوتى ہے، اور اس جيسى دوسرى چيز ہونا يا نہ ہونا بھى اس ميں اثر انداز ہوتا ہے، اور پھر ماركيٹ ميں اس كمپيٹشين كى قوت كتنى ہے اور ماركيٹ ميں موجود سامان كى كوالٹى اور اس كى قيمت كا بھى دخل ہے.
دوم:
كمپنى نے كاپى كرنے كے حقوق اپنے پاس محفوظ نہيں ركھے، اور اپنے اس حق كو ساقط كر ديا ہے، اور يہ چيز بلاشك موجودہ فروخت ريٹ كو كم كرنے كا باعث ہے، كيونكہ يہ بالكل آسانى سے مل سكتى ہے.
سوم:
ان خريداروں كى كثرت كو مدنظر ركھتے ہوئے جو اس سامان كو نہيں چاہتے اس ليے يہ سى ڈى لوگوں كے ہاں بہت زيادہ ہو گئى ہے، اور بعض اوقات تو بغير كسى عوض و قيمت كے مل جاتى ہے، اگر صرف فروخت ہو تو پھر اس كا قيمت ميں ضرور اثر ہوگا.
تنبيہ:
پہلے ميرے پاس ايك بھائى آيا اور اس نے بتايا كہ وہ كمپنى ميں ملازم تھا، اور اس نے مجھ سے اپنى ملازمت اور كام كے بارہ ميں دو سوال دريافت كيے، تو ميں نے اسے جواب لكھ كر ديا، ليكن اس نے كمپنى كے كام كى مكمل تفصيل نہيں بتائى تھى، اور نہ ہى اس كى پروڈكٹ كى قيمت اور اس انعام اور بدلے كى آخرى مقدار.... الخ.
تو ميں نے اسے ان دو محدد سوالوں كا جواب اس بنا پر ديا تھا جو اس نے ميرے سامنے بالمشافہ بيان كيا تھا، نہ كہ اس بنا پر جو كمپنى اپنے نظام اور تفاصيل اور فروخت اور اس كے تابع معاہدے ہيں.
اس سے واضح ہوا كہ ميرا پہلا لكھا ہوا جواب وہ سائل كے ان دو محدود سوالوں كا جواب تھا جو اس نے مجھ سے شخصى طور پر كيے تھے نہ كہ اس كمپنى ميں ملازمت اور اس كے كام كے جواز كا فتوى، ميں نے جواب لكھ كر ديا تھا اسے لوگوں كے سامنے پيش كيا جا رہا ہے، اور چھپوا كر تقسيم كيا جا رہا ہے اسے مد نظر ركھتے ہوئے شرعى طور پر اس كى وضاحت كرنا ضرورى تھى.
اللہ تعالى قصد كے پيچھے ہے.
واللہ اعلم .