جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

زمزم نوش كرنا مستحب ہے نہ كہ واجب

49791

تاریخ اشاعت : 17-09-2008

مشاہدات : 5968

سوال

ان شاء اللہ رمضان المبارك ميں عمرہ كرنے كى نيت ہے، اور يہ فيصلہ كيا ہے كہ خشكى كے راستے ظہر كے وقت مكہ پہنچوں گا، جيسا كہ معلوم ہے كہ عمرہ كرنے والا شخص طواف كے بعد مقام ابراہيم پر دو ركعت ادا كرنے كے بعد خوب سير ہو كر زمزم نوش كرتا ہے، ليكن ماہ رمضان ميں اور پھر ميرى نيت بھى روزہ ركھنے كى ہے زمزم كس طرح نوش كيا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

زمزم نوش كرنا مستحب ہے نہ كہ واجب، بلكہ مستحب بھى ايسا كہ مقام ابراہيم پر طواف كى دو ركعت ادا كرنے كے بعد ہى زمزم نوش كرنا خاص نہيں، بلكہ كسى بھى وقت زمزم نوش كرنا مستحب ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس كے ليے زمزم نوش كرنا اور خوب پيٹ بھر كر سير ہونا مستحب ہے، اور زمزم نوش كرتے وقت شرعى دعاؤں ميں سے كوئى بھى دعا كر سكتا ہے " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 26 / 144 ).

اور الموفق كہتے ہيں:

" اور اس كے ليے زمزم كے كنويں پر آ كر جتنا پسند كرے زمزم پينا مستحب ہے، اور خوب پيٹ بھر كر زمزم نوش كرے.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حج كا طريقہ بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بنو عبد المطلب كے پاس آئے تو وہ حجاج كو زمزم پلا رہے تھے، تو انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ڈول پكڑايا اور آپ نے اس سے زمزم نوش كيا " اھـ

اور التضلع كا معنى يہ ہے كہ خوب پيٹ بھر زمزم پيئے حتى كہ پسلياں باہر آ جائيں.

ماخوذ از: حاشيہ السندى.

اور نووى رحمہ اللہ " المجموع " ميں لكھتے ہيں:

شافعى رحمہ اللہ اور ان كے اصحاب وغيرہ كہتے ہيں: اس كے ليے زمزم نوش كرنا مستحب ہے، اور زيادہ سے زيادہ نوش كرے، اور پيٹ بھرے، اور اس كے ليے مستحب ہے كہ وہ دنيا و آخرت كے امور كے ليے زمزم نوش كرے، اور اگر وہ بخشش يا وہ بيمارى سے شفايابى وغيرہ كے ليے نوش كرنا چاہتا ہے تو اسے قبلہ رخ ہو كر بسم اللہ پڑھے اور پھر درج ذيل كلمات كہے:

اے اللہ مجھے يہ حديث ملى ہے كہ تيرے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" زمزم كا پانى اسى كے ليے ہے جس غرض سے نوش كيا جائے"

اے اللہ ميں زمزم اس ليے نوش كر رہا ہوں تا كہ تو ميرے گناہ معاف كر د اور مجھے بخش دے "

يا يہ كہے: اے اللہ ميں زمزم اس ليے نوش كر رہا ہوں كہ تو مجھے شفاياب كر دے، اے اللہ مجھے شفا عطا فرما "

اس طرح كى دعا كرے، اور اس كے ليے ہر گلاس اور كٹورا پيتے وقت تين سانس لينے چاہييں، اور زمزم نوش كرنے كے بعد اللہ كا شكر ادا كرے اور دعا پڑھے " اھـ

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حاجى اور عمر وغيرہ كرنے والے كے ليے اگر ميسر ہو سكے تو زمزم پينا مستحب ہے " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 16 / 138 ).

تواس بنا پر جب آپ روزہ كى حالت ميں عمرہ كريں تو زمزم نہ پينے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ آپ افطارى كر كے زمزم نوش كر ليں.

دوم:

جب آپ مكہ كے مسافر ہيں تو مسافر كے ليے روزہ نہ ركھنا جائز ہے اس پر علماء كا اجماع ہے، ليكن اس ميں اختلاف ہے كہ آيا روزہ ركھنا افضل ہے يا نہ ركھنا

سوال نمبر ( 20165 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے كہ افضل وہ ہے جس ميں آسانى ہو، اس ليے جس پر روزہ ركھنا سفر كى حالت ميں مشقت كا باعث ہو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا افضل ہے، اور جس كے ليے مشقت كا باعث نہ ہو اس كے ليے روزہ ركھنا افضل ہے، خاص كر عمرہ كرنے والے شخص كو عمرہ كى ادائيگى كے ليے قوت و چستى كى ضرورت ہوتى ہے تا كہ وہ پورے خشوع و خضوع كے ساتھ عبادت بجا لائے.

بعض عمرہ كرنے والے شخص غلطى كرتے ہوئے روزہ كى حالت ميں ہى عمرہ كى ادائيگى كرتے ہيں حالانكہ انہيں اس ميں مشقت ہوتى ہے، اور روزہ ان كے ليے عمرہ كى ادائيگى ميں اثرانداز بھى ہوتا ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے يوم عرفہ كے دن روزہ نہيں ركھا تھا.

امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يوم عرفہ كا روزہ ہر ايك كے ليے مستحب ہے، اور جو شخص دوران حج ميدان عرفات ميں ہو اس كے ليے يوم عرفہ كا روزہ مكروہ ہے، اور اس ميں حكمت يہ ہے كہ ہو سكتا ہے روزہ حاجى كو يوم عرفہ ميں عبادت و دعاء اور دوسرے حج كے اعمال ميں كمزور نہ كر دے. اھـ

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے صرف جمعہ كے دن كا روزہ ركھنے سے منع كيا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صرف اكيلا جمعہ كے دن كا روزہ ركھنا مكروہ ہے، ليكن اگر وہ كسى كے روزہ ركھنے كى عادت كے موافق آ جائے تو كوئى حرج نہيں، تو اگر وہ جمعہ كے ساتھ جمعرات يا ہفتہ كا روزہ ركھے، يا اس كى عادت كے موافق آ جائے مثلا اسنے بيمارى سے شفا كے روز مستقل طور پر روزہ ركھنے كى نذر مان ركھى ہو تو يہ دن جمعہ كے موافق آيا تو پھر مكروہ نہيں ...

علماء كہتے ہيں: اس سے منع كرنے ميں حكمت يہ ہے كہ: جمعہ كا دن عبادت و دعا اور ذكر و اذكار كا دن ہے، اس دن غسل كر كے جلد مسجد ميں جا كر جمعہ كى نما زكا انتظار كيا جاتا ہے، اور خطبہ سننا ہوتا ہے، اور جمعہ كے بعد كثرت سے ذكر كيا جاتا ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو جب نماز ختم ہو جائے تو تم زمين ميں پھيل جاؤ اور اللہ كا فضل تلاش كرو، اور كثرت سے اللہ كا ذكر كرو .

اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك عبادات ہوتى ہيں اس ليے اس دن روزہ نہ ركھنامستحب ہوا، اور روزہ نہ ركھنا اس روز كى عبادات اور اعمال ميں معاون ثابت ہو گا اور يہ عبادات اور اعمال پورى تندہى اور شرح صدر كے ساتھ ادا ہونگے، اور بغير كسى اكتاہٹ اور كاہلى كے ان اعمال كى ادائيگى ميں لذت آئے گى، اور يہ بالكل اسى طرح ہے جيسے حاجى ميدان عرفات ميں روزہ نہيں ركھتا، كيونكہ اس حكمت كى بنا پر حاجى كے ليے ميدان عرفات ميں يوم عرفہ كے دن روزہ نہ ركھنا سنت ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.

اور اگر يہ اعتراض كيا جائے كہ: اگر ايسا ہى ہے تو پھر يہى معنى باقى ہونے كى بنا پر تواس سے قبل اور بعد ميں بھى روزہ نہ ركھنے كى كراہت اور ممانعت باقى رہتى ہے ؟

ا س كا جواب يہ ہے كہ: جمعہ كے ساتھ پہلے يا بعد كے دن كو ملا كر روزہ ركھنے سے جمعہ كے روز اذكار اور وضائف كى وہ كمى دور ہو جائيگى جو جمعہ كے روزہ كى بنا پر ہوئى تھى اور وہ فضيلت دوسرے دن كى روزہ كى وجہ سے حاصل ہو جائيگى، تو صرف جمعہ كا اكيلا روزہ ركھنے كى ممانعت ميں يہى حكمت ہے " اھـ مختصرا.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جب مسافر روزہ كى حالت ميں مكہ پہنچے تو كيا وہ عمرہ كى ادائيگى ميں تقويت حاصل كرنے كے ليے روزہ افطار كر لے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

ہم يہ كہتے ہيں كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فتح مكہ والے سال بيس رمضان كو مكہ داخل ہوئے تو آپ نے روزہ نہيں ركھا تھا، اور صحيح بخارى كى حديث سے يہ ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم ماہ رمضان كا باقى مہينہ بھى بغير روزہ كے ہى رہے، كيونكہ آپ مسافر تھے، تو اس سے يہ ثابت ہوا كہ عمرہ كرنے والے كا مكہ پہنچ جانے سے سفر ختم نہيں ہو جاتا، اور جب وہ بغير روزہ وہاں پہنچے تو دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے گزارنا لازم نہيں، بعض لوگ يہ ديكھتے ہوئے كہ اس دور ميں دوران سفر مشقت نہ ہونے كى بنا پر سفر ميں بھى روزہ ركھتے ہيں، اور جب مكہ پہنچتے ہيں تو تھكے ہوتے ہيں، اور سوچتے ہيں كہ آيا ميں روزہ جارى ركھوں يا توڑ دوں ؟ اور افطارى كے بعد عمرہ كر لوں، يا عمرہ كى ادائيگى كے ليے مكہ پہنچتے ہى روزہ كھول دوں ؟

تواس حالت ميں ہم اسے يہ كہينگے كہ: افضل يہى ہے كہ عمرہ ادا كرنے كے ليے مكہ پہنچتے ہى روزہ كھول ليں آپ ہشاش بشاش ہونگے؛ كيونكہ عمرہ كى ادائيگى كے ليے مكہ آنے والے شخص كے ليے سنت يہى ہے كہ وہ فورا مكہ پہنچتے ہى عمرہ جيسى عباد ت مكمل كرے، اس ليے كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عمرہ كے ليے مكہ داخل ہوئے تو آپ نے سيدھا بيت اللہ كا رخ كيا، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تواپنى سوارى بھى مسجد حرام كے قريب بٹھاتے اور بيت اللہ ميں جا كر جس كا احرام باندھا ہوتا اس كو پورا كرتے.

تو آپ كے ليے افطارى كے بعد عمرہ كرنے سے افضل يہى ہے كہ آپ مكہ پہنچ كر روزہ كھول ديں تا كہ دن كے وقت ہى صحيح طرح عمرہ كى ادائيگى كر سكيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ فتح مكہ كے موقع پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں روزہ سے تھے، تو كچھ لوگ آ كر عرض كرنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں پر روزہ قائم ركھنا مشكل ہو رہا ہے، اور وہ اس انتظار ميں ہيں كہ آپ كيا كرتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دوران سفر ہى روزہ كھول ديا "

بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ نے تو دن كے آخرى حصہ يعنى عصر كے بعد روزہ كھول ديا، تا كہ امت كے ليے بيان كر ديں كہ ايسا كرنا جائز ہے، اور بعض لوگوں كا مشقت كے باوجود سفر ميں روزہ ركھنے كا تكلف كرنا بلا شك و شبہ خلاف سنت ہے، اور ان پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان صادق آتا ہے:

" سفر ميں روزہ ركھنا كوئى نيكى نہيں " اھـ

ديكھيں: اركان الاسلام صفحہ نمبر ( 464 ).

اس ليے اگر آپ كا سفر ميں روزہ ركھنا آپ كے عمرہ كى ادائيگى پر اثر انداز ہوتا ہو تو پھر آپ كے ليے افضل يہى ہے كہ آپ اس دن كا روزہ نہ ركھيں بلكہ بعد ميں قضا كر ليں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب