اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

لڑکی اسلام توقبول کرنا چاہتی ہے لیکن کچھ اسلامی احکامات پرعمل نہیں کرنا چاہتی مثلا پردہ اورنمازوں میں اوقات کی پابندی

4991

تاریخ اشاعت : 24-09-2003

مشاہدات : 7342

سوال

میں فرانس کے ایک کیتھولک عیسائ گھرانے میں پیدا ہوئ ہوں جہاں کے لوگ اپنے دین پر بہت مضبوطی سے عمل کرتے ہیں ، اورمیں بھی اس کا احترام کرتی ہوں ۔
میں اسلام کوبہت چاہتی اوراس کا اہتمام کرتی ہوں لیکن دومعاملے ایسے ہیں جومجھے اسلام قبول کرنے سے روک رہے ہیں :
پہلا تویہ ہے کہ : میں عورت ہونے کے ناطے کچھ اسلامی امور سے موافقت نہیں رکھتی ، مثلا مرد کی ایک سے زيادہ بیویاں ، شادی شدہ زانی عورت کورجم کرنا ، یہ کہ میں ہروقت اپنے محرم پرہی اعتماد کروں اوراس کے ساتھ ہی کہیں نکلوں ۔
دوسرا : اورجس طرح کہ یورپ میں ایک مسلمان عورت کی بنا پررہنا مشکل ہے ، میں اپنے کام میں پردہ نہیں کرسکتی ، اوریا پھرمردوں سے مصافحہ نہ کرنا ، اوردن میں پانچ بار نماز کی ادائيگي ، اورپھرمیرے والدین بھی جن خاص کروالدہ بیمارہے اگرانہیں میرے اسلام کا علم ہوا تووہ خوش نہيں ہوں گے ، تومیرا سوال یہ ہے کہ :
میں اس حالت میں کس طرح اسلام قبول کرسکتی ہوں ، اورکیا اسلام کے کچھ مطالبات میں کمی بھی ہے ؟
یعنی کیا اسلام میں کچھ ایسی اشیاء ہیں جنہیں میں چھوڑبھی سکتی ہوں انہین قبول نہ کروں ، یا کہ میرا انتظارکرنا افضل ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم نے مندرجہ ذیل سوال فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کے سامنے پیش کیا :

سوال :

ایک کافرہ عورت کہنتی ہے کہ میں اسلام قبول کرتی ہوں لیکن میری شرط ہے کہ میں پانچوں نمازيں دن کے آخری حصہ میں پڑھوں گی ، اس لیے کہ میں کام پرنماز ادا نہیں کرسکتی اوراسی طرح میں بیویوں کی ایک سے زیادہ ہونے میں بھی موافقت نہیں کرتی ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

الجواب :

الحمدللہ :

اگرتووہ اسلام قبول کرنااورآگ سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے توہمارے خیال میں اسے اسلامی احکامات کی پاپندی کرنی چاہیۓ ۔

لیکن وہ حکما یہ کہے کہ میں ایک سے زيادہ بیویاں رکھنے کوتسلیم نہیں کرتی ، اس کی کلام سے توظاہریہی ہوتا ہے کہ وہ اسے شرعا قبول نہیں کرتی یا پھروہ یہ کہنا چاہتی ہے کہ میں تونماز اپنے کام سے فارغ ہوکرہی ادا کروں گی ، تواس کا یہ قول ہم تسلیم نہیں کرتے ۔

سؤال : کتاب " منتقی الاخبار " میں مؤلف نے فاسد شرط کے ساتھ بھی اسلام صحیح ہے کے باب میں مندرجہ ذیل حدیث ذکر کی ہے :

وھیب رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نے جابررضي اللہ تعالی سے قبیلہ ثقیف کی بیعت کے بارہ میں سوال کیا تووہ کہنے لگے :

انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرط رکھی کہ وہ نہ توجھاد کریں گے اورنہ ہی زکاۃ ادا کریں گے توانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا کہ وہ جھاد بھی کریں گے اور زکاۃ بھی ادا کریں گے

توکیا اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اگرہمارے پاس کوئ کافرآکر کہے کہ میں ایک شرط کے ساتھ مسلمان ہوتاہوں کہ میں پانچوں نمازیں دین کے آخرمیں اکٹھی کرکے ادا کروں گا

توکیا یہ حدیث اس شخص کی حالت سے مشابہ نہیں ۔

شيخ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : نہیں یہ اس کے مشابہ نہيں اس لیے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوجب یہ کہا گيا تھا توانہوں نےجواب دیاتھا کہ جب وہ اسلام قبول کرلیں گے تو نماز بھی ادا کریں گے ، اوریہ امور غیبیہ میں سے ہے جسے ہم نہیں جانتے ۔

( یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرط قبول کرلی کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں یہ غیبی بات بتا دی کہ جب یہ لوگ اچھی طرح اسلام قبول کرلیں گے توجھادبھی کریں گے اور زکاۃ بھی ادا کریں گے ۔

لیکن ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم غیب کی چيزوں کا علم حاصل کرسکیں کہ آیا یہ کافرمستقبل میں کیا کرے گا )

اوراگر ہم کفارکی شرطیں تسلیم کرنا شروع کردیں تواسلام بکھر جاۓ گا اس لیے کہ ایک کافریہ شرط لگاۓ گا کہ اس کے لیے زنا جائز کیا جاۓ اوردوسرا کہےگا میرے لیے شراب نوشی حلال کرو، اورتیسرا یہ شرط لگاۓ گا ۔۔۔۔

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضي اللہ تعالی عنہ کواہل خیبرکے پاس بھیجا تھا تویہ کہا کہ تم اسلام میں جتنے بھی اللہ تعالی کے حقوق ان پرواجب ہوتے ہیں ان کی انہیں خبردینا ۔

تواس لیے اسلام کی جوشرطیں ہیں ان کا ماننا اورپوراکرنا ضروری ہے ، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضي اللہ تعالی عنہ کوبھی جب یمن بھیجا توانہيں فرمایاتھا کہ تم انہیں جاکربتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر پانچ نمازيں فرض کی ہیں اگرتووہ مان لیں ۔۔۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا ذکر کیا ، تواس لیے اسلام کی شرطوں کوپوراکرنا اورماننا ضروری ہے ۔

سؤال :

کیا ممکن ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اس کافرکا اسلام قبول کرنا بہت بڑي مصلحت ہے ، اوراس کا بعض عبادات کوترک کرنے کی شرط لگانا یہ قلیل فساد ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب ہے :

کبھی نہيں یہ مصلحت کس کے لیے ہے ؟ یہ اس شخص کے لیے تومصلحت ہے لیکن اسلام کے حق میں فساد ہے ، اس لیے کہ مسلمانوں میں سے سست قسم کے لوگ یہ کہنا شروع کردیں گے کہ ہم بھی جب فارغ ہوں گے تونماز اد کر لیا کریں گے جس طرح یہ شخص کرتا ہے ۔

تواس لیے یہ اسلام کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا ، تواگر یہ شخص اپنے آپ کونجات دلانا چاہتا ہے تواسلام کواس کی شروط کے ساتھ قبول کرے ، اورجسے اللہ تعالی گمراہ کردے اسے کوئ بھی ھدایت دینے والا نہیں ۔ا ھـ

توہم سوال اوراسلام کا اہتمام کرنے والی سے یہ عرض کریں گے کہ آپ اسلام لائيں اوراسلام کومکمل قبول کریں اورشریعت کے سارے معاملات میں اللہ تعالی کی اطاعت کریں تواللہ تعالی آپ کی مدد فرماۓ گا اورآپ کوشریعت کی تنفیذ اورتطبیق کی قوت و طاقت دے گا لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ آپ اللہ تعالی کے ساتھ سچائ اوراخلاص نیت اختیار کریں ۔

پھرفرض کرلیں اگرآپ کے سامنے کوئ ایسا معاملہ آتا ہے جسے آّپ عذرشرعی کی بنا پرپورا کرنے اوراس کی تنفیذ کی طاقت نہيں رکھتیں اورآپ مجبور ہوجائيں اوراللہ تعالی آپ کے صدق کوجان لے توپھر وہ اس پرآپ کوکوئ مؤاخذہ نہيں کرے گااوراس پر‏عذاب نہیں دے گا ۔

اللہ تعالی ہمیں اورآپ کوحق قبول کرنے اوراس کی پاپندی سے پیروی کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔ اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پررحمتیں نازل کرے ۔

واللہ اعلم  .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد