اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

رمضان كو دن كے وقت بيوى كى دبر ميں جماع كرنے والے شخص كا حكم

50452

تاریخ اشاعت : 24-10-2005

مشاہدات : 14635

سوال

رمضان المبارك ميں ميرى نئى نئى شادى ہوئى تھى، اور ميں اپنى بيوى سے دور رہنے پر صبر نہيں كر سكتا تھا، اور روزے كى حالت ميں جماع كے بغير بيوى سے خوشطبعى كرتا تھا، مجھے احساس تك نہ رہا اور ميں نے دبر ميں وطئى كر ڈالى اور انزال بھى ہو گيا تو اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بيوى كى دبر ميں وطئى كرنا كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو اسے كاہن اور نجوميوں كے پاس جانے كے ساتھ ملايا اور اسے كفر كا نام ديا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص حائضہ عورت يا عورت كى دبر ميں وطئى كرتا ہے، يا كاہن كے پاس جاتا ہے اس نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كردہ ( شريعت ) كے ساتھ كفر كيا"

سنن ترمذى حديث نمبر ( 135 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3904 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 639 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 2433 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كى دبر ميں وطئى كرنے والے پر لعنت كرتے ہوئے فرمايا:

" جو شخص اپنى بيوى كى دبر ميں وطى كرتا ہے وہ ملعون ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2162 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 3432 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مندرجہ بالا احاديث ميں عورت كى دبر ميں وطئى كرنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور يہ فعل فطرت كے بھى منافى و مخالف ہے، اور اللہ تعالى كے غيظ و غضب كا موجب و باعث اور امراض كا سبب ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

بيوى كى دبر ميں وطئى كرنے والے پر كيا واجب ہوتا ہے ؟ اور كيا كسى عالم دين نے اسے مباح بھى قرار ديا ہے ؟

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

رب العالمين:

كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى رو سے دبر ميں وطئى كرنا حرام ہے، اور صحابہ كرام اور تابعين عظام وغيرہ ميں سے عام مسلمان آئمہ كرام اس پر متفق ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى اپنى كتاب مجيد ميں فرماتا ہے:

تمہارى بيوياں تمہارى كھيتي ہيں، تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ اور اپنے نفسوں كے ليے آگے بھيجو.

اور صحيح بخارى ميں ہے كہ:

يہودى يہ كہا كرتے تھے كہ اگر مرد اپنى كى پچھلى جانب سے اس كى قبل ميں وطئى كرے تو بچہ بھينگا پيدا ہوتا ہے، تو مسلمانوں نے اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرما دى:

تمہارى بيوياں تمہارى كھيتى ہيں تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ اور اپنے ليے آگے بھيجو.

اور حرث يعنى كھيتى بونے والى جگہ كو كہتے ہيں، اور بچہ شرمگاہ ميں بويا جاتا ہے، نہ كہ دبر ميں .....

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 267 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1103 ) ديكھيں اس ميں عورت كى دبر ميں وطئى كرنے كا حكم اور اس كے نفسياتى اور بدنى برے اثرات بيان كيا گئے.

اور اس كے علاوہ سوال نمبر ( 6792 ) كا جواب بھى ديكھيں اس كى دلائل كے ساتھ اس كا حكم بيان ہوا ہے.

اور سوال نمبر ( 49614 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ خاوند اپنى بيوى سے روزے كى حالت ميں خوشطبعى كر سكتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اس سے جماع نہ كرے، يا انزال نہ ہو، اور بيوى كے ساتھ روزے كى حالت ميں جماع كرنا حرام ہے، تو پھر دبر ميں وطئى كرنا اور وہ بھى انزال كے ساتھ ؟ !

دوم:

اور آپ كے اس فعل كى بنا پر آپ كے روزے پر يہ مرتب ہوتا ہے كہ روزہ فاسد ہونے ميں تو كوئى شك و شبہ نہيں، جمہور اہل علم نے بيوى كى دبر ميں وطئى كرنے والے شخص پر قضاء اور كفارہ واجب كيا ہے، چاہے انزال ہو يا نہ ہو.

اور اس حكم ميں آپ كے ساتھ آپ كى بيوى بھى شريك ہے، اور اس پر بھى قضاء اور كفارہ ہے؛ كيونكہ ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس نے آپ كى اطاعت كى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں:

اس ميں كوئى فرق نہيں كہ شرمگاہ قبل ہو يا دبر عورت كى ہو يا مرد كى، امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا بھى يہ كہنا ہے.... كيونكہ اس نے رمضان كا روزہ جماع كے ساتھ توڑا ہے تو اس پر وطئى كى طرح كفارہ ہے. انتہى

ماخوذ از المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 3 / 27 ) اختصار كے ساتھ.

اور سوال نمبر ( 38023 ) كے جواب ميں ہے كہ:

" جس نے رمضان المبارك ميں دن كے وقت روزے كى حالت ميں عمدا اور اختيار كے ساتھ اس طرح جماع كر ليا كہ دونوں شرمگاہيں آپس ميں مل گئيں، اور مرد كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں غائب ہو گيا تو اس كا روزہ ٹوٹ گيا، چاہے انزال ہوا ہو يا نہ ہوا ہو، اسے توبہ كرنى چاہيے اور اس دن كو وہ پورا كرے اور اس پر اس دن كى قضاء اور كفارہ مغلظ ہو گا "

مسلمان شخص كو اللہ تعالى كے تقوى اور پرہيزگارى كى حرص ركھنى چاہيے، اوراس كى حرام كردہ اشياء سے اجتناب كرنا چاہيے، اور خاص كر اس ماہ مبارك ميں جس ميں اللہ سبحانہ وتعالى نے صرف تقوى كو پيدا كرنے كے ليے روزے فرض كيے ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تم پر روزے فرض كيے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض كيے گئے تھے تا كہ تم تقوى اختيار كرو البقرۃ ( 183 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب