منگل 18 رمضان 1446 - 18 مارچ 2025
اردو

روزے دار کی دعا کا تعلق افطاری کے ساتھ ہے یا افطاری کے وقت کے ساتھ چاہے تاخیر سے ہی افطار کرے؟

505019

تاریخ اشاعت : 02-03-2025

مشاہدات : 697

سوال

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (تین لوگ ایسے ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی۔۔۔ ان میں سے ایک روزے دار جب وہ روزہ افطار کرے۔) تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بتلایا ہوا دعا کی قبولیت کا وقت سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو جائے گا؟ یا روزے دار کے افطار کرنے تک جاری رہے گا چاہے روزے دار اذان کے کچھ دیر بعد ہی روزہ افطار کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: عادل حکمران اور روزے دار جب تک روزہ افطار کر لے، جبکہ مظلوم کی دعا بادلوں پر ڈال کر اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اللہ تعالی فرماتا ہے: مجھے میری عزت کی قسم! میں تمہاری ضرور مدد کروں گا چاہے کچھ عرصے بعد ہی کروں۔) اس حدیث کو امام احمد نے "مسند" (13 / 410)، ترمذی: (3598)، اور ابن ماجہ: (1752) نے روایت کیا ہے ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ حدیث حسن ہے۔" اسی طرح ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، جیسے کہ "الفتوحات الربانية" از: ابن علان (4 / 338) میں موجود ہے، جبکہ مسند احمد کے محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔

ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے، جیسے کہ "الإحسان" (8 / 214) میں اس پر باب ہے کہ: "افطاری کے وقت روزے دار کی دعا قبول ہونے کی امید کے بارے میں " ختم شد

جبکہ سنن ابن ماجہ: (1753) میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً روزے دار کے لیے افطاری کے وقت دعا ہوتی ہے جو کبھی رد نہیں کی جاتی۔)

سنن ابن ماجہ کے محققین کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند حسن ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (26879) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

ان احادیث میں یہ احتمال موجود ہے کہ اس سے مراد روزہ ختم ہونے کا وقت مراد ہو، یعنی جیسے ہی سورج غروب ہوا اور روزہ افطار کرنے کا وقت ہو گیا۔

جبکہ یہ بھی احتمال موجود ہے کہ حقیقی افطاری مراد ہو کہ جب روزے دار افطاری کے لیے کھا پی لے، چاہے سورج غروب ہونے کے کچھ مدت کے بعد ہی ہو۔

یہ دوسرا احتمال زیادہ بہتر لگتا ہے۔

جیسے کہ علامہ کمال دمیری رحمہ اللہ کہتے ہی:
"سنن ابن ماجہ: (1753) سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً روزے دار کے لیے افطاری کے وقت مقبول دعا ہوتی ہے۔) تو ابن عمر رضی اللہ عنہ افطاری کے وقت کہا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ؛ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ، اَللَّهُمَّ؛ يَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَةِ! اِغْفِرْ لِيْ ترجمہ: یا اللہ! پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور ان شاء اللہ اجر یقینی ہو گیا ۔ یا اللہ! اے وسیع مغفرت والے! مجھے بخش دے۔
اب اس دعا سے واضح ہے کہ انہوں نے یہ دعا افطاری کے بعد پڑھی ہے، جو کہ بالکل عیاں بات ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: "النجم الوهاج في شرح المنهاج» (3/ 325)

ابن علان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"باب ہے: افطاری کے وقت کیا کہے؟
۔۔۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے مطابق افطار کے وقت مذکورہ دعا پڑھنا مستحب ہے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتلایا کہ یہ دعا افطاری سے پہلے پڑھنی ہے ۔ کیونکہ الفاظ سے یہ چیز واضح ہے۔ چنانچہ { أفطرت} سے مراد افطاری کے وقت کا ہو جانا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ ان سب مطالب کا احتمال ہو سکتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس دعا کو افطاری سے پہلے، یا بعد میں یا افطاری کے ساتھ بھی پڑھ لیں تو مستحب عمل ادا ہو جائے گا۔

میرا موقف یہ ہے کہ: افطاری کے بعد دعا پڑھنا ثابت ہے۔
پھر انہوں نے مذکورہ دلائل کا تذکرہ کیا۔" ختم شد
"الفتوحات الربانية على الأذكار النووية" (4/339)

خلاصہ یہ ہوا کہ:
روزے دار کو افطاری کے وقت دعا کرنی چاہیے، چاہے افطاری فوری کرے یا تاخیر سے ، اور چاہے دعا افطاری کا وقت ہونے کے بعد اور حقیقی افطاری کرنے سے پہلے کرے، یا افطاری کے دوران کرے یا افطاری کرنے کے بعد کرے، ان شاء اللہ اس میں وسعت ہے۔

لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ افطاری کا وقت ہونے پر فوری افطاری کرنا مسنون ہے، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (50019) میں ذکر کر آئے ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب