جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا داڑھى منڈوانے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے ؟

50784

تاریخ اشاعت : 22-11-2005

مشاہدات : 6654

سوال

كيا رمضان ميں روزے كى حالت ميں داڑھى منڈوانے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے ؟
اللہ تعالى ہميں اور سب مسلمانوں كو داڑھى منڈانے سے بچا كر ركھے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحيح اور صريح احاديث كى بنا پر جن ميں پورى داڑھى ركھنے كا حكم ديا گيا ہے كى بنا پر رمضان اور غير رمضان ميں مرد كے ليے داڑھى منڈانا حرام ہے، ان احاديث ميں سے چند ايك ذيل ميں دى جاتى ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مشركوں كى مخالفت كرو، اورداڑھى كو بڑھاؤ، اور مونچھيں چھوٹى كرواؤ "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5893 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 260 ).

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچھيں پست كراؤ، اور داڑھى بڑھاؤ، اور مجوسيوں كى مخالفت كرو"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 260 ).

علامہ ابن مفلح رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ابن حزم رحمہ اللہ تعالى نے اجماع بيان كيا ہے كہ مونچھيں كاٹنا اور داڑھى بڑھانا فرض ہے " انتہى

ديكھيں: الفروع ( 1 / 130 ).

دوم:

داڑھى منڈانا روزے كو توڑنے والى اشياء ميں شامل نہيں، ليكن اس سے روزے دار كے اجروثواب ميں كمى واقع ہوتى ہے، اور اسى طرح جھوٹ اور غيبت وغيرہ دوسرى معاصى كا ارتكاب بھى اجروثواب ميں كمى كا باعث بنتى ہيں.

شيخ ابن عثمين رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:

كيا آدمى كا روزہ كى حالت ميں حرام كلام كرنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى نے جواب ديا:

" جب ہم اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان كو پڑھتے ہيں:

اے ايمان والو تم پر روزے فرض كيے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض كيے گئے تھے، تا كہ تم متقى بن جاؤ البقرۃ ( 183 ).

تو ہميں روزے كى حكمت معلوم ہوتى ہے كہ روزے كى حكمت تقوى ہے اور تقوى حرام اشياء كو ترك كرنے كا نام ہے، اور جب يہ مطلقا ذكر كيا جائے تو احكام پر عمل كرنے اور جس چيز سے منع كيا گيا ہے سے اجتناب دونوں كو شامل ہوتا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص بے ہودہ گوئى اور غلط كلام اور اس پر عمل اور جہالت ترك نہيں كرتا، تو اللہ تعالى كو اس كے بھوكا اور پياسا رہنے كى كوئى ضرورت نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6057 ).

اور اس بنا پر اس ميں اور بھى تاكيد ہو جاتى ہے كہ روزے دار كو حرام اقوال اور افعال سے اجتناب كرنا چاہيے، لہذا نہ تو وہ غيبت كرے اور كسى كى چغلى كھائے، اور نہ ہى جھوٹ اور كذب بيانى سے كام لے، اور نہ ہى حرام خريد وفروخت كرے، اور باقى سب حرام اشياء اور كام سے اجتناب كرے.

اور جب اس ماہ مبارك ميں انسان اس سے اجتناب كرتا ہے تو وہ باقى سارا سال بھى سيدھا اور صحيح رہے گا، ليكن افسوس تو اس پر ہے كہ بہت سارے روزے دار اپنے روزے اور غير روزہ كى حالت ميں فرق تك نہيں كرتے اور وہ اپنى اسى عادت پر قائم رہتے ہوئے كذب بيانى اور جھوٹ، دھوكہ و فراڈ وغيرہ سے كام ليتے رہتے ہيں، اور انہيں روزے كے وقار اور عزت كا احساس تك نہيں ہوتا.

حالانكہ يہ افعال روزے كو باطل تو نہيں كرتے ليكن روزے كے اجروثواب ميں كمى اور نقص پيدا ضرور كرتے ہيں، اور بعض اوقات روزے كا اجروثواب بالكل ضائع كر ديتے ہيں " انتہى

ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 233 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب