جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

چاول کی فصل فروخت ہونے کے بعد اس کا عشر کیسے ادا کرے؟

511467

تاریخ اشاعت : 18-10-2024

مشاہدات : 834

سوال

چاول کاشت کرنے والے کسان حضرات اپنی فصل کٹائی اور خشک ہونے سے پہلے لیکن چاول بننے کے بعد فروخت کر دیتے ہیں، تو خریدار کمپنی خود سارے چاول کی کٹائی کرتی ہے، ایسے میں چاول کی اس فصل کا کسانوں پر عشر واجب ہو چکا ہوتا ہے؛ کیونکہ چاول بالیوں میں بن کر تیار ہو چکا ہے، لیکن کسان چونکہ چاول کٹائی سے پہلے ہی فروخت کر دیتے ہیں اور خریدار کمپنی خود کٹائی کر کے سارا چاول ساتھ لے جاتی ہے، تو اب انہی چاولوں سے عشر ادا کیا جائے گا یا ان کی قیمت لگا کر بھی عشر ادا کیا جا سکتا ہے؟

جواب کا خلاصہ

چاول کی فصل کو اس کا دانہ بننے کے بعد فروخت کرنا جائز ہے، اور جہاں اسے چھلکے سمیت فروخت کیا جاتا ہے، وہاں اس کے نصاب کا تخمینہ دس وسق سے لگایا جائے گا، چنانچہ اگر زرعی محصول کی مقدار دس وسق ہو جائے تو فروخت کنندہ پر زرعی محصول کا عشر ادا کرنا واجب ہے، چاہے اسی زرعی محصول میں سے خرید کر ادا کرے، یا اس کے برابر نقدی قیمت عشر میں دے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اناج پر عشر تب واجب ہوتا ہے جب اناج کا دانہ سخت ہو جائے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (4/ 169)میں کہتے ہیں:
“اناج میں عشر تب واجب ہو گا جب اناج کا دانہ سخت ہو جائے، جبکہ پھلوں میں عشر تب ہو گا جب تیار ہونے کے قریب ہو۔” ختم شد

بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جس وقت اناج میں دانہ سخت ہو جائے، اور پھل تیار ہونے کے قریب ہو تو عشر واجب ہو جائے گا؛ کیونکہ اب یہ کھانے کے لائق ہے، اسے خشک اناج کی طرح خوراک کے طور پر استعمال بھی کیا جا سکتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص اناج یا پھل فروخت کر دے، یا اس مرحلے کے بعد کاشتکار کی غلطی سے تلف ہو جائے، تو عشر پھر بھی ادا کرنا ہو گا۔

اور اگر کھڑی فصل کو اس مرحلے سے پہلے کاٹ دے یا فروخت کر دے تو پھر اس پر عشر واجب نہیں ہے، بشرطیکہ اس نے یہ اقدام عشر سے بچنے کے لیے نہ کیا ہو۔

جب تک اناج کھلیان [جہاں فصل خشک کرنے کے لیے پھیلائی جاتی ہے۔] وغیرہ میں منتقل نہ کر دیا جائے اس وقت تک عشر کا وجوب حتمی نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس سے پہلے تک فصل کو قبضے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

چنانچہ اگر اناج کھلیان میں منتقل کرنے سے پہلے کسی بھی ذاتی زیادتی اور کوتاہی کے بغیر ضائع ہو جائے تو عشر بھی ساقط ہو جائے گا؛ کیونکہ فصل باقی نہیں رہی۔” ختم شد
“الروض المربع” ( 1/532)

دوم:

اناج کا نصاب پانچ وسق چھلکے ، بھوسے ، توڑی اور مٹی وغیرہ سے پاک صاف کر کے پورا کیا جائے گا۔

ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ زرعی محصول کا عشر اناج کو گاہنے اور بھوسے سے صاف کرنے کے بعد لیا جائے گا، اسی طرح کھجوروں کا عشر بھی کھجوریں خشک ہونے کے بعد لیا جائے گا۔” ختم شد
“تفسير الطبري” (9/611)

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حوالے سے امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عشر فصل کی کٹائی ، صفائی، بھوسا نکال کر ماپنے کے بعد دیا جائے گا، جبکہ پھلوں میں خشک کر کے صاف کرنے بعد ماپ کر دیا جائے گا۔” ختم شد
” المحلى” (4/20)

علامہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اناج کا عشر اناج کو بھوسے وغیرہ سے صاف کر کے ادا کیا جائے گا، اسی طرح پھل کے خشک ہونے کے بعد؛ کیونکہ سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ: (انگوروں کے منقی بننے پر وزن کا تخمینہ لگائیں جیسے کھجوروں کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، پھر انگوروں کا عشر منقے کی شکل میں لیا جائے گا، جیسے کھجوروں کا عشر خشک کھجور کی صورت میں لیا جاتا ہے۔)” ختم شد
“كشاف القناع” (4/413)

“لیکن اگر اناج ایسا ہے کہ اسے اس کی بالیوں یا چھلکے میں ہی محفوظ کیا جا سکتا ہے جیسے کہ علس نامی مخصوص ایرانی گندم کہ اس کا دانہ گندم جیسا ہی ہوتا ہے، اور اسی طرح کچھ علاقوں میں چاولوں کو بھی چھلکے سمیت محفوظ کرتے ہیں تو اس حوالے سے بعض شافعی فقہائے کرام نے کہا ہے کہ اس کا نصاب دس وسق ہو گا؛ کیونکہ چھلکے میں اناج کو محفوظ کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔” ختم شد
“الموسوعة الفقهية الكويتية” (23/283)

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“علس: گندم کی ایک مخصوص قسم ہے جسے چھلکے سمیت محفوظ کیا جاتا ہے، اس کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسے چھلکے سے نکال دیا جائے تو یہ خراب ہو جاتی ہے بلکہ اس کا وزن بھی آدھا رہ جاتا ہے، اس لیے اس کا نصاب چھلکے سمیت معتبر ہو گا؛ کیونکہ چھلکے سے نکالنے کے بعد نقصان ہوتا ہے۔

چنانچہ اگر چھلکے سمیت 10 وسق ہو جائے تو اس کا عشر ادا کیا جائے گا۔ اور اگر ہمیں شک ہو کہ واقعی نصاب پورا ہو بھی رہا ہے یا نہیں، تو کاشتکار کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ ابھی عشر ادا کر دے یا پھر گاہنے کے بعد پانچ وسق کے اعتبار سے عشر ادا کرے، بالکل اسی طرح جیسے ملاوٹ والے سونے اور چاندی کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جب حقیقی سونے یا چاندی کی مقدار نصاب تک پہنچنے کے متعلق شک ہو ۔

اس مخصوص گندم کے علاوہ کسی بھی اناج کا تخمینہ چھلکے سمیت نہیں لگایا جائے گا، بلکہ اناج کو صاف کرنے سے پہلے بھی نہیں لگایا جائے گا؛ کیونکہ اسے چھلکے میں رکھنے کی کوئی مصلحت بھی نہیں ہے، نہ ہی عمومی طور پر اس اناج کو چھلکے سمیت رکھا جاتا ہے، نہ ہی اس میں سے عشر کی صحیح مقدار معلوم ہو سکے گی۔

ابو خطاب رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ دھان کا نصاب 10 وسق ہے؛ کیونکہ دھان کو چھلکے سمیت ذخیرہ کیا جاتا ہے، اور اگر چھلکے سے نکال لیا جائے تو پھر زیادہ دیر محفوظ نہیں رہتا جتنا چھلکے میں رہتا ہے، تو اس طرح یہ علس نامی ایرانی گندم جیسا ہوا۔

جبکہ دیگر اہل علم کا کہنا ہے کہ: اس کا نصاب چھلکے سمیت معتبر نہیں ہو گا، الا کہ معتبر تجربہ کار لوگ کہیں کہ نصاب آدھا کیا جائے، ایسی صورت میں یہ علس کے نصاب کی طرح ہو گا۔ چنانچہ اگر یہ بات بتلانے والے تجربہ کار ماہرین دستیاب نہ ہوں، یا ہمیں نصاب پورا ہونے کے متعلق شک ہو تو ہم کاشتکار کو چھلکے سمیت عشر ادا کرنے یا اناج صاف کر کے صافی اناج کا عشر ادا کرنے کا اختیار دیں گے، چنانچہ جب نصاب کی مقدار پوری ہو جائے تو عشر وصول کر لیا جائے گا اور اگر نہیں ہوتا تو عشر وصول نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ یقینی صورت اسی طرح بنتی ہے اسی لیے ہم نے اسے ایسی جنس شمار کیا ہے جس کی قیمت واضح نہیں ہے۔” ختم شد
“المغنی” (4/ 162)

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“چاول بھی دھان کی صورت میں محفوظ کیے جائیں تو یہ بہتر ہوتا ہے۔ اور چاول دھان کی صورت میں دس وسق ہوں تو نصاب پورا ہو گا، جیسے کہ ہم نے علس [ایرانی مخصوص گندم] کے بارے میں کہا ہے۔ اور اگر دھان کو گاہ لیا جائے اور چھلکا اتار دیا جائے تو اس کا نصاب 5 وسق ہے، جیسے ہم علس کے متعلق کہہ چکے ہیں۔

دھان اور علس کا عشر چھلکے سمیت نکالا جائے گا؛ کیونکہ انہیں ایسے ہی محفوظ کیا جاتا ہے۔ چاولوں کے بارے میں جو ہم نے ذکر کیا ہے امام شافعی رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ یہی ذکر کیا ہے۔” ختم شد
“المجموع شرح المهذب” منیریہ طبع، (5/ 503)

سوم:

اگر چاول کا زرعی محصول نصاب کو پہنچ جائے اور اس میں عشر واجب ہونے کے بعد فروخت کر دیا گیا تو ان چاولوں کی زکاۃ دسویں یا بیسویں حصے کے برابر انہی جیسے چاولوں کو خرید کر عشر دیا جائے گا، اور اگر دسویں یا بیسویں حصے کی قیمت ادا کر دے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (4/ 171)میں کہتے ہیں:
“اگر کاشتکار کھڑی فصل کو دانہ بننے کے بعد فروخت کر دے یا کسی کو تحفہ دے دے، تو اس کا عشر فروخت کنندہ اور تحفہ دینے والے پر لازم ہو گا۔

یہی موقف حسن بصری، امام مالک، سفیان ثوری ، اوزاعی، اور لیث بن سعد کا ہے، الا کہ فروخت کنندہ خریدار پر یہ شرط لگا دے تو خریدار عشر ادا کرے گا۔

فروخت کنندہ پر عشر اس لیے واجب ہے کہ فصل کے فروخت ہونے سے پہلے اِسی پر عشر واجب تھا ، تو وہ اپنی اصلی کیفیت میں باقی ہے۔

اس لیے کاشتکار اسی فصل جیسی جنس عشر میں ادا کرے گا۔

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: کاشتکار کو جنس یا جنس کی رقم دونوں میں سے کوئی ایک عشر کے طور پر ادا کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔” ختم شد

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے زرعی محصول کا عشر ضرورت یا مصلحت کے تحت نقدی کی صورت میں دینے کو راجح قرار دیا ہے۔

آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اکثر علمائے کرام یہ سمجھتے ہیں کہ عشر میں قیمت صرف وہی ادا کر سکتے ہیں جہاں شریعت نے اس کی صراحت کی ہے، اس کا تذکرہ اونٹوں کی زکاۃ میں دو بکریاں یا بیس درہم کی صورت میں ہے۔

جبکہ صحیح موقف یہ ہے کہ: اگر مصلحت یا ضرورت ہو چاہے جانوروں کی زکاۃ میں ہو یا زرعی محصول میں تو قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔” ختم شد
“الشرح الممتع” (6/148)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب