الحمد للہ.
ماموں كى بيٹى آپ كى محرم عورتوں ميں شامل نہيں اس ليے اس كے اور آپ كے درميان وہى احكام جارى ہونگے جو باقى اجنبى عورتوں ميں ہيں، اور ان ميں اس سے شادى كرنے كا جواز بھى شامل ہے، ليكن يہاں ايك اہم چيز پر تنبيہ كرنا ضرورى ہے وہ يہ كہ:
خاوند اور بيوى كے مابين محبت ہونا بہت اچھى بات ہے اور مرد كے ليے اس عورت سے شادى كرنا مستحب ہے جس سے وہ محبت كرتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" دو محبت كرنے والوں كے ليے نكاح جيسى كوئى چيز نہيں "
صحيح الجامع حديث نمبر ( 5200 ).
ليكن ايسا نہيں ہونا چاہيے كہ يہ محبت زيادتى كاشكار ہو اور انسان سے وہ اہم صفات دور ہو جائيں جو اس عورت ميں ہونى چاہيے جس سے شادى كرنا چاہتا ہے، اور ان ميں سب سے اہم دين ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورت سے نكاح چار وجوہات سے كيا جاتا ہے: اس كے مال كى وجہ سے، اور اس كے حسب نسب كى بنا پر، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى وجہ سے، اور اس كى دين كى بنا پر، تم دين والى كو اختيار كرو تيرے ہاتھ خاك ميں مليں " متفق عليہ.
اگر تو آپ كے ماموں كى بيٹى دين و اخلاق والى ہے تو آپ كا اختيار بہت اچھا ہے، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى رغبت پورى كرے اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كرے اور اگر وہ اس طرح كى نہيں تو آپ اپنے اختيار ميں ذرا غور كريں, اللہ تعالى آپ كو وہ كام كرنے كى توفيق دے جس سے اللہ راضى ہوتا ہے اور انہيں پسند كرتا ہے.
واللہ اعلم .