ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

استعمال كے ليے تيار كردہ زيور كى زكاۃ

59866

تاریخ اشاعت : 25-09-2007

مشاہدات : 10447

سوال

1994 ميں شادى كے موقع پر ميرے سسر نے ميرى بيوى كو ( 560 ) گرام وزنى سونے كا زيور ديا، اور جب ميرى بيوى كے ہاں پيدائش ہوئى تو رشتہ داروں كى جانب سے كچھ سونے كے ٹكڑے بطور ہديہ ملے، اور اسى طرح ميں نے 1994 سے 2004 كى مدت كے دوران اپنى بيوى كے ليےكچھ زيور خريدا اب ميرى بيوى نے مجھے بتايا ہے كہ ہمارے ذمہ دو سو چاليس گرام سونا بطور زكاۃ ادا كرنا ہو گا.
ميرا سوال يہ ہے كہ : كيا ميں ان تينوں قسم كے سونے كى ادا كروں، تفصيل اور دليل كے ساتھ واضح كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

زيب و زينت اور پہننے كے ليے تيار كردہ زيور ميں زكاۃ كے مسئلہ ميں علماء كرام اختلاف ركھتے ہيں.

احناف اس ميں زكاۃ كو واجب قرار ديتے اور جمہور علماء كرام مالكيہ شافعيہ اور حنابلہ واجب قرار نہيں ديتے.

احناف كا قول راجح ہے، اس كے كئى ايك دلائل ہيں:

1 - سونے اور چاندى ميں زكاۃ كے وجوب كے دلائل كا عموم جن ميں استعمال كے ليے زيور وغيرہ ميں كوئى تفريق نہيں ہے.

2 - نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميرے پاس رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم آئے تو ميرے ہاتھ ميں چاندى كى دو بڑى بڑى انگوٹھياں ديكھ كر فرمانے لگے:

اے عائشہ يہ كيا ہے ؟ تو ميں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے يہ اس ليے تيار كى ہيں تا كہ آپ كے ليے ان سے بناؤ سنگھار اور زينت اختيار كروں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا ان كى زكاۃ ديتى ہو؟

ميں نے عرض كيا: نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تيرے ليے يہ آگ ہے"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 155 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

الفتحات : بڑى انگوٹھى، اور الورق چاندى كو كہتے ہيں.

3 - عمر بن شعيب عن ابيہ عن جدہ بيان كرتے ہيں كہ ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور اس كے ساتھ اس كى بيٹى تھى، اور اس كى بيٹى كے ہاتھوں ميں سونے كے دو موٹے كنگن تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" كيا اس كى زكاۃ ديتى ہو؟

تو وہ كہنے لگى: نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تمہيں يہ اچھا لگتا ہے كہ اللہ تعالى اس كے بدلے ميں تجھے روز قيامت آگ كے كنگن پہنائے ؟

راوى كہتے ہيں كہ: تو اس عورت نے وہ دونوں كنگن اتار ديے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف پھينك كر كہنے لگى: يہ دونوں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے ہيں"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1563 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 2479 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

دوم:

جب آپ كے علم ميں آيا كہ اس ميں زكاۃ واجب ہے اس وقت سے ليكر آپ پر زكاۃ كى ادائيگى واجب ہے، ليكن وہ سال جن ميں آپ كو يہ علم نہيں تھا كہ زيور پر زكاۃ واجب ہے، ان برسوں كى زكاۃ نكالنا لازم نہيں ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے ايسى عورت كے متعلق دريافت كيا گيا جس كے پاس پہننے كےليے زيور تھا اور اس كے پاس كئى برس تك رہا، پھر اسے علم ہوا كہ اس ميں زكاۃ واجب ہے، تو كيا اسے گزشتہ سب برسوں كى زكاۃ نكالنا لازم ہے ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جب سے اسے علم ہوا كہ استعمال كے ليے بنايا جانے والے زيور ميں زكاۃ واجب ہے، اسے اس وقت سے زكاۃ دينى لازم ہو گى، ليكن وہ برس جن ميں اسے زيور پر زكاۃ كے وجوب كا علم نہيں اس كى آپ پر زكاۃ نہيں ہے، كيونكہ علم ہونے كے بعد احكام شريعت لازم ہوتے ہيں"

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 84 ).

اور اس جيسے ہى ايك سوال كے جواب ميں شيخ نے كہا:

" اسے چاہيے كہ وہ مستقبل ميں ہر سال اس كى زكاۃ ادا كرے اگر وہ نصاب كو پہنچتا ہو.... ليكن وہ برس جو اس ميں زكاۃ كے وجوب كا علم ہونے سے قبل گزر چكے ہيں اس ميں جہالت اور شبہ كى بنا پر كچھ نہيں ہے، كيونكہ بعض اہل علم پہننے والے زيور ميں زكاۃ كے وجوب كے قائل نہيں ہيں ليكن راجح يہى ہے كہ جب نصاب تك پہنچے اور اس پر سال مكمل ہو جائے تو اس ميں زكاۃ واجب ہے، كيونكہ اس كى كتاب و سنت ميں دليل ملتى ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 85 )

سوم:

استعمال كے ليے تيار كردہ زيورات جب سونے اور چاندى كے ہوں تو اس ميں زكاۃ واجب ہے، لہذا اس بنا پر اگر تو آپ كے خريدے ہوئے زيورات سونے اور چاندى كے نہيں تو اس ميں زكاۃ نہيں ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 40210 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

چہارم:

زكاۃ زيورات كے مالك كے ذمہ ہے نہ كہ خاوند كے ذمہ.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" زيورات كى زكاۃ اس كى مالكہ پر ہے، اور اگر اس كا خاوند يا كوئى اور اس كى اجازت سے زكاۃ ادا كر دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور سونے سے ہى زكاۃ نكالنى واجب نہيں، بلكہ ہر برس سال مكمل ہونے پر ماركيٹ ميں سونے اور چاندى كى قيمت كے مطاقب اس كى قيمت سے بھى زكاۃ نكالى جا سكتى ہے"

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 85 ).

ليكن .... اگر آپ دونوں كو ديے گئے ہديہ جات اور تحفے ميں سے آپ نے اپنا حصہ اپنى بيوى كو نہيں ديا تو پھر اگر وہ حصہ نصاب جو كہ پچاسى گرام سونا ہے تك پہنچتا ہو تو آپ پر اس كى زكاۃ نكالنا واجب ہے.

زكاۃ كى مقدار اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) ہے، لہذا سو گرام ميں سے اڑھائى گرام زكاۃ نكالى جائے گى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب