الحمد للہ.
اول:
اس طريقہ پر لين دين كرنا جائز نہيں ہے، اور يہ حرام كردہ سودى قرض كى صورتوں ميں سے ايك صورت ہے.
اس كا بيان اس طرح ہے كہ: قرض كى حقيقت يہ ہے كہ: كسى ايسے شخص كو مال ديا جائے جو اس سے نفع حاصل كرے اور اس كا بدل دے.
مالك كو ادا كى گئى رقم كا بدل مقرر كردہ مدت ختم ہونے پر واپس كرديا جائے گا، لہذا يہ مال قرض ہوا، اور قرض دينے والے نے اس قرض سے فائدہ حاصل كيا ہے، اور اس كا فائدہ گھرسے نفع كى شكل ميں ہے حتى كہ اسے اس كا مال واپس كرديا جائے.
لہذا اس معاملے كى حقيقت يہ ہوئى كہ يہ ايسا قرض ہے جونفع لا رہا ہے، اور علماء كرام كا ہر اس قرض كى حرمت پر اتفاق ہے جو قرض دينے والے كے ليے نفع لائے، اور يہ سود كى ايك قسم ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى اپنى مايہ ناز كتاب " المغنى" ميں كہتے ہيں:
اور ہر وہ قرض جس ميں زيادہ كى شرط ہو وہ بغير كسى اختلاف كے حرام ہے، ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس پر سب جمع ہيں كہ قرض دينے والے نے جب قرض لينے والے كے ليے زيادہ يا ہديہ كى شرط ركھى اور اس شرط پر قرض ديا تو اس پر حاصل كردہ زيادہ سود ہو گا.
اور ابى بن كعب، اور ابن عباس ، ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے كہ انہوں نے نفع لانے والے قرض سے منع كيا ہے. اھـ ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 6 / 436 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى" الشرح الممتع" ميں كہتے ہيں:
قرض ميں شروط كى مثال جو نفع لائے يہ ہے كہ:
ايك آدمى كسى شخص كے پاس آيا اور كہنے لگا: ميں چاہتا ہوں كے تم مجھے ايك لاكھ بطور قرض دو، تو اس نے كہا: ليكن ميں تيرے مكان ميں ايك ماہ رہوں گا، تو يہاں قرض نے قرض دينے والے كو نفع ديا ہےاور يہ حرام ہے اور جائز نہيں...
كيونكہ قرض ميں اصل تو قرض لينے والے پر احسان اور نرمى ہے، لہذا جب اس ميں شرط آجائے تو يہ معاوضہ ميں شامل ہو جائے گا، اور جب بطور معاوضہ ہو تو يہ نقد اور ادھار سود پر مشتمل ہے.
مثلا: جب مجھ سے كسى نے ايك لاكھ قرض ليا تو ميں نے اس پر يہ شرط لگا دى كہ ميں اس كے مكان ميں ايكا ماہ رہائش ركھوں گا، تو گويا كہ ميں نے ايك لاكھ كو مكان ميں ايك ماہ كى رہائش كے زيادہ ميں فروخت كيا، اور يہ مدت كا ( ادھار ) سود ہے، كيونكہ اس ميں عوض كى سپردگى ميں تاخير ہے، اور رباالفضل ہے كيونكہ اس ميں زيادہ ہے.
لہذا اسى ليے علماء كرام كا كہنا ہے كہ: " جو قرض بھى نفع لائے وہ حرام ہے" اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 64 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے كہ :
قرض لينے كى شروط:
پہلى شرط: قرض دينے والے كو نفع نہ ملے.
قرض دينے والے كو نفع قرض كے حصول كے عمل ميں سے ہے يا تو وہ معاہدے ميں شرط سے پورا ہو تا ہے يا پھر بغير كسى شرط كے، اگر شرط كى بنا پر ہو تو بغير كسى اختلاف كے حرام ہے..... اھـ
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 3 / 266 ).
دوم:
يہ جاننا ضرورى ہے كہ معاہدوں ميں اس كے معانى اور حقائق كا اعتبار ہوتا ہے، لہذا اس معاملے كى حقيقت ( جيسا كہ گزر چكا ہے ) يہ ہے كہ يہ ايسا قرض ہے جو نفع لا رہا ہے، اور يہ سود كى ايك قسم ہے، اور لوگوں كا اسے كرائے كا نام دينا اس كى حقيقت ميں سے كچھ بھى نہيں بدل سكتا، اور نہ ہى اس كا حكم بدل سكتا ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ: ان كى امت كے كچھ لوگ شراب نوشى كرينگے اور اسے اس كے نام كے علاوہ كوئى اور نام سے موسوم كريں گے.
لہذا حرام پر حيلے بازيوں سے بچنا بہت ضرورى ہے، كيونكہ تھوڑى سى رقم كرايہ كى مد ميں ادا كرنے سے اس حرام كو حلال نہيں كرے گى، كيونكہ ادا كردہ مال كى بڑى مقدار تو وہى قرض رہے گى جو نفع لا رہى ہے.
لھذا صاحب مال صرف اس ليے مال ( قرض ) كى اتنى بڑى رقم دے رہا ہے جو اسے واپس بھى كردى جائے گى كہ اسے گھر كا فائدہ حاصل ہو گا، اور گھر والا وہ گھر كسى دوسرے كو نفع حاصل كرنے كے ليے قرض كے بغير نہيں دے رہا.
اور اللہ تعالى پر تو كوئى پھى مخفى چيز چھپ نہيں سكتى، اور پھر اللہ تعالى نے حرام كو حيلے بہانوں سے حلال كرنے والوں كو سزا بھى دى، جيسا كہ ہفتہ والوں كے قصہ ميں ہے ( ہفتہ كے دن مچھلى شكار كرنے والوں كو ) .
واللہ اعلم .