اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

سودى قرض لينے سے توبہ

60185

تاریخ اشاعت : 03-04-2007

مشاہدات : 9014

سوال

ميرے مالى حالات بہت سخت ہوئے تو ميں نے مجبورا بنك سے قرضہ ليا، كيونكہ ميں اپنى شادى كے ليے فليٹ تيار كرنا چاہتا تھا، يہ علم ميں رہے كہ اس فليٹ ميں كوئى ادنى سى بھى فضول خرچى نہيں، يہ فليٹ بہت ہى چھوٹا ہے، ميں مدرس ہوں ميرى تنخواہ بنك منتقل ہو چكى ہے جس ميں سے ہر ماہ كچھ رقم كاٹى، جس كا دورانيہ پانچ برس ہے حتى كہ قرض ختم ہو جائے، اس وقت اڑھائى برس ہو چكے ہيں، ميں نے پختہ ارادہ كيا ہے كہ بنك جا كر اس قرض كو بند كردوں، كيونكہ جو حادثہ بھى ميرے ساتھ ہوتا ہے ميں محسوس كرتا ہوں كہ يہ سب كچھ اس قرض كى وجہ سے ہوا ہے، ليكن مجھ پر يہ منكشف ہوا ہے كہ ادائيگى والى رقم ميرى طاقت سے باہر ہے، اس پر مستزاد يہ كہ اس برس ميں نے اپنى بيوى اور بيٹے بيٹى كے ساتھ عمرہ كرنے كى نيت كر ركھى ہے تو كيا ميرے ليے اپنے بيٹے كى شفايابى كى اميد ركھتے ہوئے عمرہ كرنا جائز ہے، اور ميں واپس آكر آئندہ گيارہويں مہينہ ميں ان شاء اللہ قرض كى ادائيگى كر دونگا، يا مجھے اس سلسلے ميں كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بنك يا كہيں اور سے سودى قرض لينا جائز نہيں، چاہے اپنى شادى كے ليے گھر كى تيارى كرنا ہى مقصود ہو؛ كيونكہ سود كى حرمت ميں يقينى اور موكد تحريم وارد ہے، اور اس پر شديد قسم كى وعيد بھى سنائى گئى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو، اور جو سود باقى ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم سچے اور پكے مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كروگے تو اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ لڑائى كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو اصل مال تمہارے ہى ہيں، نہ تو تم خود ظلم كرو، اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے البقرۃ ( 278 - 279 ).

اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور سود كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور كہا: يہ سب برابر ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ہر وہ قرض جس ميں زيادہ لينے كى شرط ركھى گئى ہو وہ بغير كسى اختلاف كے حرام ہے، ابن منذر كہتے ہيں: وہ سب اس پر جمع ہيں كہ جب ادھار دينے والا ادھار لينے والے پر زيادہ يا ہديہ كى شرط ركھے، اور اس شرط پر اسے ادھار دے تو اس پر زيادہ لينا سود ہوگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 6 / 436 ).

جس شخص نے بھى سود پر قرض ليا ہو اس پر واجب ہے كہ وہ اللہ كے سامنے اس كى توبہ كرتے ہوئے جو كچھ ہو چكا اس پر ندامت كرے، اور پختہ عزم كرے كہ آئندہ اس عظيم گناہ اور خطرناك جرم كا ارتكاب نہيں كريگا، جس ميں بہت شديد قسم كى وعيد سنائى گئى ہے جو كسى اور گناہ كے متعلق نہيں، اللہ تعالى ہميں عافيت سے نوازے.

پھر شرعى طور پر تو آپ كے ليے اصل مال كى ادائيگى لازم ہے، ليكن اس پر جو زيادہ رقم لى جا رہى ہے وہ حرام ہے، آپ پر اس كى ادائيگى لازم نہيں، اور قرض دينے والے شخص كے ليے زيادہ رقم لينى جائز نہيں ہے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم توبہ كر لو تو اصل مال تمہارے ہى ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے .

ليكن اگر آپ كو نقصان اور ضرر پہنچنے كا خدشہ ہو، اور آپ سے يہ فائدہ ادا نہ كرنے كى باز پرس ہونے كا ڈر ہو تو آپ اس كى ادائيگى كر ديں اور اس كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى كے ہاں توبہ كريں، اور اس عظيم برائى سے كراہت بھى كريں.

شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميں نے ايك دوست سے سو جنى ( مصرى سكہ ) اس شرط پر ليے كہ ايك برس بعد اسے ايك سو پچاس واپس كرونگا، اور جب ادائيگى كا وقت آيا تو ميں نے اسے سو روپے دينے كى كوشش كى ليكن وہ مدت كے عوض ميں پچاس زيادہ لينے پر مصر رہا، تو اس زيادہ كا حكم كيا ہے ؟

اور اگر يہ سود ميں شامل ہوتا ہے تو كيا ميں گنہگار ہوں، اور ميں اس سے چھٹكارا كيسے حاصل كر سكتا ہوں، يہ علم ميں رہے كہ ميں نے جو رقم اس سے بطور قرض حاصل كى تھى وہ ميرے مال كے ساتھ مل چكى ہے اب مجھے كيا كرنا ہوگا ؟

شيخ حفظہ اللہ نے جواب ديا:

" اللہ سبحانہ وتعالى نے سود حرام كيا، اور اس پر شديد قسم كى وعيد سنائى ہے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

وہ لوگ جو سود كھاتے ہيں وہ كھڑے نہيں ہونگے مگر اسى طرح جس طرح وہ شخص كھڑا ہوتا ہے جسے شيطان چھو كر خبطى بنا دے البقرۃ ( 275 ).

حتى كہ اللہ تعالى نے يہاں تك فرمايا:

اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو، اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم سچے اور پكے مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كروگے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ لڑائى كے ليے تيار ہو جاؤ البقرۃ ( 278 - 279 ).

اور پھر سود كئى انواع و اقسام كا ہے، آپ نے سوال ميں جو بيان كيا ہے وہ بھى انہيں اقسام ميں سے ايك قسم ہے، وہ يہ كہ فائدہ كے ساتھ قرض لينا؛ كيونكہ شرعى قرض تو قرض حسنہ ہے جو آپ اپنے مسلمان بھائى كو ديں تا كہ وہ اس رقم سے مستفيد ہو اور پھر اتنى ہى رقم آپ كو واپس كرے اس ميں نہ تو كسى كمى اور نہ ہى زيادتى كى كوئى شرط ہو، يہ قرضہ حسنہ ہوتا ہے.

ليكن جو قرض نفع لائے، يا جس قرض كے پيچھے زيادہ لينے كا مقصد ہو وہ كتاب و سنت اور مسلمانوں كے اجماع كے مطابق حرام ہے، اور ايسا كرنے والے كو شديد قسم كى وعيد سنائى گئى ہے، تو واجب يہى ہے كہ جتنى رقم لى گئى تھى وہى واپس كى جائے، ليكن وہ زيادہ رقم جس كى شرط لگائى گئى ہے اور آپ سے لى گئى وہ حرام اور سود ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور سود پر گواہى دينے والوں پر لعنت كى ہے، تو اس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائى جو سود ليتا ہے، اور ان ميں سے جس نے بھى سود كھانے پر معاونت كى اس پر بھى لعنت فرمائى ہے، تو آپ نے جو كام كيا ہے وہ كبيرہ گناہوں ميں سے ايك كبيرہ گناہ ہے، آپ پر لازم ہے كہ اس سے اللہ تعالى كے ہاں توبہ كريں، اور اس پر يہ لازم آتا ہے كہ جو رقم اس نے آپ سے زيادہ حاصل كى ہے اسے واپس كرے كيونكہ اس كے ليے يہ زيادہ رقم لينى حلال نہيں، اور آپ نے بھى اسے زيادہ رقم دے كر حرام كام كا ارتكاب كيا ہے، آپ پر واجب يہ تھا كہ آپ اسے يہ زيادہ رقم دينے سے باز رہتے....

آپ دونوں نے جو كام كيا ہے وہ صريحا سود ہے، آپ دونوں كو اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرتے ہوئے آئندہ ايسا لين دين كرنے سے باز رہنے كا عزم كرنا چاہيے، اور دوسرے شخص كو چاہيے كہ اس نے جو زيادہ رقم لى ہے وہ واپس كر دے. واللہ تعالى اعلم" انتہى.

المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 5 / 210 ).

آپ يہ جان ليں كہ آپ جتنى بھى جلدى اس قرض سے چھٹكارا حاصل كر ليں آپ كے ليے بہتر اور اچھا ہے؛ تا كہ آپ سود كےگناہ اور اس كے اثرات سے محفوظ ہو كر ان سے چھٹكارا حاصل كر سكيں.

اس ليے آپ كے ليے اولى اور بہتر يہى ہے كہ آپ اس كى ادائيگى ميں جلدى كريں، اور جو رقم عمرہ پر خرج كرنى ہے اس ميں سے اس قرض كى ادائيگى كريں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے بيٹے كو شفايابى سے نوازے، اور آپ كى تكليف اور پريشانى دور فرمائے، اور آپ كو حرام سے بچا كر حلال نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب