سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

لاعلمى كى بنا پر بالوں كو سياہ كر ليا اب اسى طرح رہنے دے يا تبديل كر دے ؟

60194

تاریخ اشاعت : 15-04-2008

مشاہدات : 6433

سوال

ميرى ايك سہيلى نے اپنے بالوں كو حرمت كا علم نہ ہونے كى بنا پر سياہ كر ليا، اب علم ہونے كے بعد اس نے مجھ سے دريافت كيا ہے كہ آيا ميں اسے كوئى اور رنگ كروں يا ويسے ہى رہنے دوں، اور كيا دونوں ابروؤں كے درميان والے بال زائل كرنے حرام ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر بالوں ميں سفيدى ہو ت وانہيں سياہ كرنا حرام ہے، ليكن اگر بال سياہ تھے تو انہيں سياہ خضاب لگانے ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كچھ عورتيں بالوں كو نرم و ملائم كرنے كے ليے ايك مخلوط مادہ استعمال كرتى ہيں، اور يہ مخلوط مادہ مہندى اور كچھ دوسرى جڑى بوٹيوں سے ملا كر بنايا جاتا ہے، ان جڑى بوٹيوں ميں ايسى بوٹى بھى ہے جو بالوں كو سياہ كرتى ہے، چنانچہ اس مخلوط مادہ كے استعمال كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ عورتيں اسے بال نرم و ملائم كرنے كے ليے استعمال كرتى ہيں، نہ كہ بال سياہ كرنے كے ليے، اس ليے كہ بعض عورتوں كے بال سياہ ہوتے ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" بالوں كو نرم و ملائم كرنے كے ليے يہ مخلوط معجون استعمال كرنے ميں كوئى حرج نہيں، شرط يہ ہے كہ جب اسے وہ عورت استعمال كرے جس كے بال سفيد نہ ہوں، ليكن اگر بالوں ميں سفيدى ہو يہ معجون استعمال كرنى جائز نہيں، كيونكہ سفيد بالوں كو يہ سياہ كر ديگى؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اس سفيدى كو تبديل كرو، اور سياہى سے اجتناب كرو " انتہى

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 476 ) اور ( 47652 ) اور ( 1187 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

مرد و عورت ميں سے جس نے بھى علم ركھتے اور جان بوجھ كر ايسا كيا تو وہ گنہگار ہے، اور اسے اس كام سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور اپنے كيے پر نادم ہو، اور آئندہ كے ليے عزم كرے كہ وہ ايسا كام نہيں كريگا، اور توبہ كى تكميل كے ليے سياہ رنگ كو زائل كرنا ضرورى ہے اگر اسے زائل كرنے ميں كوئى ضرر و نقصان نہ ہو.

ليكن جو شخص حكم كا علم نہ ركھتا ہو تو اس پر كوئى گناہ نہيں، ليكن اسے يہ سياہ رنگ ختم كرنا چاہيے، اور وہ اسے لگانے ميں معذور تھا، ليكن اسے باقى ركھنے تو معذور نہيں ہے.

بالكل اسى طرح وشم يعنى جسم ميں گدوانا بھى ہے، جب كسى شخص نے بچپن ميں جسم گدوايا، يا پھر اسے حرام ہونے كا علم نہ تھا اس وقت اس نے گدوايا تو جب بھى اسے اس كى حرمت كا علم ہو تو اگر اسے زائل كرنے ميں كوئى ضرر اور نقصان نہ ہو تو زائل كرنا ضرورى ہے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

وشم يعنى جسم گدوانے كا حكم كيا ہے، اور جب كسى لڑكى نے بچپن ميں جسم گدوايا تو كيا اسے گناہ ہوگا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" وشم يعنى جسم گدوانا حرام ہے، بلكہ يہ كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جسم گدوانے اور گودنے والى عورت پر لعنت فرمائى ہے.

اور جب كسى لڑكى نے بچپن ميں جسم گدوايا اور وہ اپنے آپ كو اس سے روك نہ سكى تو اس پر كوئى حرج نہيں، بلكہ اس كا گناہ اس شخص پر ہے جس نے اس كو يہ كام كروايا؛ كيونكہ اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى وسعت اور طاقت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا، اور يہ بچى تصرف كى استطاعت نہيں ركھتى تھى، ليكن اگر بغير كسى ضرر اور نقصان كے وہ اسے زائل كر سكتى ہى تو اسے ختم كر دے " انتہى.

ديكھيں: اسئلۃ تھم المراۃ المسلمۃ سوال نمبر ( 20 ).

دوم:

دونوں ابروؤں كے درميان والے بالوں كو اتارنے كے حكم كے متعلق گزارش يہ ہے كہ: سوال نمبر ( 21400 ) كے جواب ميں مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى كے علماء كرام كا بيان گزر چكا ہے كہ يہ ابروؤں ميں شامل نہيں، اس بنا پر انہيں ختم اور زائل كرنا جائز ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب