الحمد للہ.
اس كالم ميں جو چائے خمير كرنے كا ذكر ہے يہ وہ خمير نہيں جو انگور اور كھجور وغيرہ كى شراب بنانے كے ليے كيا جاتا ہے، بلكہ يہاں خمير كا معنى آكسيڈ ہے، اس كا معنى يہ ہے كہ تجربہ كار اور ماہرين كے قول كے مطابق چائے كو تين گھنٹے تك آكسيجن كے سامنے ركھا جاتا ہے.
اور سبز چائے كو توڑنے كے بعد بخارات كے ساتھ خشك كيا جاتا ہے، اور اسے كسى بھى آكسيڈ ميں نہيں ركھا جاتا، بلكہ اسے تازہ چائے ميں موجود طريقہ سے محفوظ كيا جاتا ہے.
ليكن سرخ چائے ـ يا سياہ چائے ـ كے پتوں كو باريك سلك كے جال ميں جمع كيا جاتا ہے تا كہ اس ميں سے زائد پانى ختم ہو جائے، اور پھر ان پتوں كو توڑ كر چھان ليا جاتا ہے، اور چھوٹے ٹكڑوں پر خمير كا عمل ( آكسيڈ ) كيا جاتا ہے، وہ اس طرح كہ چائے كے پتوں كو تين گھنٹے تك آكسيجن كے سامنے ركھا جاتا ہے، جس سے سبز چائے كا رنگ تبيديل ہو كر گہرا رنگ ہو جاتا ہے تا كہ بعد ميں ہم اس سے سياہ چائے حاصل كر سكيں، اور پتوں كى اصل كے اعتبار سے اسے " سياہ چائے " اور بنانے كے بعد اسے " سرخ چائے " كہا جاتا ہے.
اور اگر چائے كو آكسيجن كے سامنے جزئى طور پر كچھ دير كے ليے ركھا جائے تو ہميں سبز اور سياہ كے درميان خمير شدہ چائے حاصل ہو گى، اور اسے " ٹنين " كا نام ديا جاتا ہے، اور ذائقہ اور صفات ميں يہ سبز اور سياہ كے درميان ہوتى ہے.
ديكھيں: موسوعۃ الاعشاب الطبيۃ تاليف ڈاكٹر احمد محمد عوف.
اور قاموس الغذا و التداوى بالنبات تاليف احمد قدامۃ طبع دار النفائس.
اور كتاب: الغذاء لا الدواء تاليف ڈاكٹر صبري القباني طبع دار العلم للملايين، يہ سب كتابيں حرف تہجى كے اعتبار سے مرتب كى گئى ہيں.
ہميں تو اس موضوع ميں ماہرين كى يہى كلام ملى ہے، اس سے يہ پتہ چلتا ہے كہ چائے كے پتوں كو خمير كرنے كا عمل حرام نہيں، اور اسے خمير كرنے كا عمل يہ ہے كہ چائے كے پتوں كو آكسيجن كے سامنے ركھا جاتا ہے، ہمارے علم كے مطابق كسى بھى اہل علم نے اسے حرام نہيں كہا.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
بعض لوگ كہتے ہيں كہ: چائے خمور ميں شامل ہوتى ہے كيونكہ چائے كے سبز پتوں كو خمير كيا جاتا ہے تا كہ سياہ ہو جائے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" ہمارے علم كے مطابق اس قول كى كوئى اصل نہيں "
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 441 ).
واللہ اعلم .