الحمد للہ.
اول:
رمضان المبارك كے روزے دين اسلام كے اركان ميں سے ايك ركن ہے، صحيح بخارى اور مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور نماز قائم كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور حج كى ادائيگى، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
اس ليے جس شخص نے بھى روزے ترك كيے اس نے اركان اسلام ميں سے ايك ركن ترك كر ديا، اور عظيم اور كبيرہ گناہ كا مرتكب ہوا، بلكہ بعض سلف تو اسے كافر اور مرتد قرار ديتے ہيں، اللہ تعالى اس سے بچا كر ركھے.
ذھبى رحمہ اللہ تعالى الكبائر ميں لكھتے ہيں:
" مؤمنيں كے ہاں يہ بات مقرر كردہ ہے كہ جس نے بھى بغير بيمارى اور بغير كسى عذر و غرض كے روزہ نہ ركھا، وہ زانى اور شرابى سے بھى زيادہ برا ہے، بلكہ وہ تو اس كے اسلام ميں شك كرتے، اور اسے زنديق اور گمراہ تصور كرتے ہيں" انتہى.
ديكھيں: الكبائر ( 64 ).
دوم:
امتحانات كى بنا پر روزہ ترك كرنے كے متعلق شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" كسى بھى مكلف شخص كے ليے امتحانات كى بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہيں، كيونكہ يہ شرعى عذر ميں شامل نہيں، بلكہ اس كے ليے روزہ ركھنا واجب ہے، اور اگر وہ دن ميں سٹڈى نہيں كر سكتا تو اسباق كى تيارى اور مطالعہ رات كو كيا كرے "
اور امتحانات كے منتظمين كو بھى طلباء كا خيال كرتے ہوئے ان پر نرمى اور شفقت كرنى چاہيے، اور دونوں مصلحتوں كو جمع كرتے ہوئے وہ امتحانات رمضان المبارك كے بعد ركھيں، تا كہ روزے ميں خلل نہ ہو، اور امتحانات كى بھى تيارى بافراغت ہو كر ہو سكے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے اللہ جو كوئى بھى ميرى امت كے كسى معاملہ كا ذمہ دار ہو اور وہ ان پر نرمى اور شفقت برتے تو اے اللہ تو بھى اس كے ساتھ نرمى اور شفقت كا برتاؤ كر، اور جو كوئى شخص ميرى امت كے كسى معاملہ كا ذمہ دار بنے اور ان پر مشقت اور سختى كرے تو اے اللہ تو بھى اس پر مشقت اور سختى كر "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اس ليے امتحانات كے ذمہ داران سے ميرى گزارش ہے كہ وہ طلباء اور طالبات پر شفقت و نرمى كرتے ہوئے امتحانات رمضان المبارك سے پہلے يا بعد ميں ركھيں"
اللہ تعالى سب كو توفيق سے نوازے. انتہى.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 4 / 223 ).
اسى طرح مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
رمضان المبارك ميں ساڑھے چھ گھنٹے كا امتحان ہوگا، جس ميں پون گھنٹہ آرام كے ليے ہے، ميں نے پچھلے برس بھى امتحان ديا تھا ليكن روزے كى بنا پر اچھى طرح تيارى نہ كر سكا، كيا ميرے ليے امتحان والے دن روزہ نہ ركھنا جائز ہے؟
فتوى كميٹى كا جواب تھا:
" آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے اس كى بنا پر روزہ نہ ركھنا جائز نہيں، بلكہ يہ حرام ہے؛ كيونكہ رمضان المبارك ميں روزہ نہ ركھنے كے مشروع عذر ميں شامل نہيں ہوتا " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 240 ).
سوم:
رہا مسئلہ قضاء واجب ہونے كے متعلق تو يہ تفصيل كا محتاج ہے:
اگر آپ نے اس گمان كى بنا پر روزہ افطار كيا كہ امتحانات كى بنا پر روزہ افطار كرنا جائز ہے، تو آپ كے ذمہ روزہ كى قضاء ہے، كيونكہ آپ اس غلط گمان كى بنا پر معذور ہيں، اور آپ نے عمدا اور جان بوجھ كر حرام فعل كا ارتكاب نہيں كيا.
ليكن اگر آپ نے اس كى حرمت كا علم ہوتے ہوئے روزہ نہ ركھا تو آپ كے ذمہ توبہ و ندامت اور استفار كرنا لازمى ہے، اور آئندہ عزم كريں كہ اس عظيم گناہ كا ارتكاب دوبارہ نہيں كرينگى.
اس روزے كى قضاء كے متعلق گزارش ہے كہ اگر آپ نے روزہ ركھنے كے بعد دن كے وقت روزہ توڑا تو آپ كے ذمہ قضاء ہے، ليكن اگر آپ نے روزہ ركھا ہى نہيں تو پھر آپ كے ذمہ اس كى قضاء نہيں، بلكہ اس كے ليے ان شاء اللہ آپ كو سچى توبہ ہى كافى ہو گى، اس كے ساتھ ساتھ آپ نفلى روزے وغيرہ دوسرے اعمال صالحہ كثرت سے كريں، كيونكہ ايسا كرنے سے فرائض ميں حاصل ہونے والى كمى پورى ہو جاتى ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے رمضان المبارك ميں دن كے وقت بغير كسى عذر كے روزہ توڑنے كا حكم دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" رمضان المبارك ميں بغير كسى عذر كے روزہ توڑنا كبيرہ گناہ ہے، ايسا كرنے سے انسان فاسق بن جاتا ہے، اس كو اللہ تعالى كے سامنے توبہ كرنى چاہيے، اور اس روزہ كى قضاء ميں ايك روزہ بھى ركھے، يعنى اگر اس نے روزہ ركھ ليا اور بغير كسى عذر كے دن كے كسى بھى وقت روزہ توڑ ديا تو وہ گنہگار ہے، اور اس توڑے ہوئے روزہ كے بدلے ايك روزہ ركھےگا.
كيونكہ جب روزہ ركھ ليا اور اسے فرض سمجھتے ہوئے شروع كر ديا تو نذر كى طرح اس كى قضاء ميں روزہ ركھنا لازم ہے، ليكن اگر وہ بغير كسى عذر كے جان بوجھ كر روزہ ركھتا ہى نہيں تو اس ميں راجح يہى ہے كہ اس پر قضاء لازم نہيں؛ كيونكہ اس كا اسے كوئى فائدہ نہيں ہوگا، اس ليے كہ اس كا يہ روزہ قبول نہيں ہو گا.
اصول اور قاعدہ يہ ہے كہ: كوئى بھى عبادت جو وقت كے ساتھ معين ہے جب اسے اس كے وقت سے بغير كسى شرعى عذر كے مؤخر كر ديا جائے تو اس عبادت كو بجا لانے والے كى وہ عبادت قبول نہيں ہو گى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
اور اس ليے بھى كہ يہ اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كرنا ہے، اور اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز ظلم ہے، اور ظالم سے قبول نہيں ہو گى.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كرے تو يہى لوگ ظالم ہيں .
اور اس ليے بھى كہ اگر يہ عبادت اپنے وقت سے قبل كر لى جائے ـ يعنى وقت شروع ہونے سے قبل عبادت كى ادائيگى كر لى جائے ـ تو قبول نہيں، اسى طرح اگر وقت نكل جانے كے بعد ادا كى جائے تو بھى قبول نہيں ہو گى، ليكن اگر معذور ہو تو اور بات ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 45 ).
چہارم:
ان سب سالوں كى قضاء ميں تاخير كرنے پر آپ كو اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كرنى چاہيے، كيونكہ جس كے ذمہ رمضان المبارك كے روزے رہتے ہوں تو وہ آنے والے رمضان سے قبل ان كى قضاء كر لے، اور اگر وہ آنے والے رمضان سے بھى تاخير كرتا ہے تو اس نے حرام فعل كا ارتكاب كيا.
اور آيا اس پر كفارہ ( يعنى ہر روز كے بدلے ايك مسكين كو كھانا دينا ) بھى واجب آتا ہے يا نہيں ؟
اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، اور اقرب الى الصواب يہ ہے كہ كفارہ واجب نہيں، ليكن اگر آپ احتاطا كفاراہ ادا كرديں تو يہ بہتر ہو گا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 26865 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ:
اگر تو آپ كا خيال اور گمان تھا كہ امتحانات كى بنا پر روزہ توڑنا يا نہ ركھنا جائز ہے تو آپ كے ذمہ اس كى قضاء ہے، اور قضاء كے ساتھ كفارہ كى ادائيگى لازم نہيں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كى توبہ قبول فرمائے.
واللہ اعلم .