اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

جھگڑنے والوں كے درميان صلح كے ليے جھوٹى قسم كھانا

60316

تاریخ اشاعت : 09-03-2007

مشاہدات : 7772

سوال

كيا لڑے ہو شخصوں كے مابين صلح كرانے كے ليے جھوٹى قسم كھانى جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مؤمن كے ليے اصل تو يہى ہے كہ وہ سچ بولے اور سچائى كو ہى اختيار كرے، اور صحيح اور حق كلام ہى كرے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور سچائى اختيار كرنے والوں كا ساتھ دو التوبۃ ( 119 ).

اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم سچائى كو لازم پكڑو، كيونكہ سچائى نيكى اور بھلائى كى طرف راہنمائى كرتى ہے، اور يقينا نيكى جنت كى طرف لے جاتى ہے، اور آدمى سچ بولتا رہتا اور سچائى كو تلاش كرتا رہتا ہے حتى كہ اللہ تعالى كے ہاں صديق لكھ ديا جاتا ہے، اور تم جھوٹ بولنے سے اجتناب كرو، كيونكہ جھوٹ فجور كى راہنمائى كرتا ہے اور فجور آگ كى طرف لے جاتا ہے، اور آدمى جھوٹ بولتا رہتا اور جھوٹ تلاش كرتا رہتا ہے حتى كہ اللہ تعالى كے ہاں اسے كذاب اور جھوٹا لكھ ديا جاتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5743 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2607 ).

شريعت اسلاميہ ميں ايك دوسرے كے مابين صلح كرانے كى بہت زيادہ اہميت پائى جاتى ہے، اور اس صلح كرانے والے كو صلح كے نتيجہ ميں بہت زيادہ اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اسى طرح لوگوں كے مابين فساد اور خرابى پيدا كرنے ميں بہت زيادہ اور شديد قسم كى تحذير پائى جاتى ہے.

مسلمان معاشرہ ميں آپس ميں ايك دوسرے كے درميان اصلاح كرنے كى اہميت اور اختلاف و نفرت كے بہت زيادہ خطرناك ہونے كى بنا پر اللہ سبحانہ وتعالى نے اصلاح كرنے اور عداوت و نزاع اور اختلاف ختم كرنےكى غرض سے جھوٹ بولنا مباح كيا ہے، كيونكہ عداوت و نزاع اور اختلاف كے نتيجہ ميں لوگوں كے دين پر سلبى اثر پڑتا ہے.

ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تمہيں نماز اور روزہ كے درجہ سے بھى افضل چيز نہ بتاؤں ؟

تو صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ضرور بتائيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" آپس ميں ايك دوسرے كى صلح كرانا، كيونكہ ايك دوسرے كے مابين فساد مچانا يہى مونڈھ دينے والى ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2509 ) ترمذى نے اس حديث كو حسن صحيح كہا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا يہ مونڈھ دينے والى ہے، ميں يہ نہيں كہتا كہ يہ بالوں كو مونڈھ دينے والى ہے، بلكہ يہ دين كو مونڈھ كر ركھ ديتى ہے " انتہى.

اور اللہ تعالى نے جس پر كرم كيا ہو اور اسے مسلمانوں كے مابين صلح كرانے كى توفيق دى اور اسے اس صلح اور اصلاح كرانے كے ليے جھوٹ بولنے كى ضرورت محسوس ہو تو اس ميں كوئ حرج نہيں، اور اسے جھوٹا كہنا جائز نہيں، كيونكہ اس نے تو شرعى مصالح ميں ميں ايك عظيم معاملے كے ليے جھوٹ بولا ہے، جس ميں شريعت نے جھوٹ بولنا مباح كيا ہے، جيسا كہ صحيحين كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

ام كلثوم بنت عقبہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جو لوگوں كے درميان صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولتا ہے وہ كذاب اور جھوٹا نہيں، وہ اچھى چغلى كرتا اور اچھى بات كہتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2546 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2605 ).

ليكن رہا مسئلہ اصلاح اور صلح كرانے كے ليے جھوٹى قسم اٹھانا تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ جائز ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مؤمن كے ليے تو مشروع يہى ہے كہ وہ كم از كم قسميں اٹھائے چاہے سچا بھى ہو پھر بھى زيادہ قسميں نہ اٹھائے؛ كيونكہ زيادہ قسميں كھانے سے ہو سكتا ہے وہ جھوٹ ميں پڑ جائے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ جھوٹ بولنا حرام ہے، اور جب يہ جھوٹ كے ساتھ ہو تو اس كى حرمت اور بھى زيادہ شديد ہو جائيگى.

ليكن اگر جھوٹى قسم اٹھانے كى كوئى ضرورت يا راجح مصلحت پيش آ جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ حديث ميں آتا ہے كہ:

ام كلثوم بن عقبہ بن ابى معيط رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" لوگوں كے درميان صلح كرانے كےليے جھوٹ بولنے والا شخص كذاب اور جھوٹا نہيں، وہ خير كى چغلى اور خير بات كہے.

ام كلثوم كہتى ہيں: ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس سلسلے ميں تين مقام پر جھوٹ بولنے كى رخصت كے علاوہ كچھ نہيں سنا:

لوگوں كے مابين صلح كرانے كےليے، اور جنگ ميں، اور خاوند كا اپنى بيوى سے بات چيت ميں، اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت ميں "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.

اس ليے اگر وہ لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے ايسا كہے كہ: اللہ كى قسم تيرے ساتھى تو صلح كرنا پسند كرتے ہيں، اور وہ يہ پسند كرتے ہيں كہ آپ كسى بات پر متفق ہو جائيں، اور وہ اس اس طرح چاہتے ہيں، پھر وہ دوسرے گروہ كے پاس آئے اور انہيں بھى اسى طرح كى بات كہے، ليكن اس كا مقصد خير اور بھلائى اور اصلاح كا ہو تو مذكورہ حديث كى بنا پر اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور اسى طرح اگر كوئى انسان يہ ديكھے كہ كوئى شخص دوسرے پر ظلم كرتے ہوئے اسے قتل كرنا چاہتا ہے، يا اس پر كسى دوسرى چيز ميں ظلم كر رہا ہے تو اسے كہے:

اللہ كى قسم يہ ميرا بھائى ہے، حتى كہ وہ اسے اس ظالم سے بچا لے، اگر وہ اسے ناحق قتل كرنا چاہتا ہو، يا اسے بغير كسى حق كے مارنا چاہتا ہو اور اسے يہ علم ہو كہ اس نے اسے احتراما بھائى كہا ہے، تو اس طرح كى حالت اور مصلحت ميں اپنے بھائى كو ظلم سے بچانا واجب ہے.

مقصد يہ ہے كہ اصل ميں جھوٹى قسم اٹھانى ممنوع اور حرام ہے، ليكن جب جھوٹى قسم اٹھانے ميں كوئى جھوٹ سے بھى بڑى مصلحت پيدا ہوتى ہو جيسا كہ سابقہ حديث ميں تين مقام پر ہے "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 1 / 54 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب