اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

جو شخص قتل تك پہنچ جائے اور نماز ترك كرنے پر اصرار كرے وہ مسلمان كيسے ہو سكتا ہے ؟

6035

تاریخ اشاعت : 01-07-2006

مشاہدات : 7341

سوال

ميرے عزيز استاد صاحب اللہ تعالى آپ كے علم ميں اضافہ فرمائے:
تارك نماز كے بارہ ميں علماء كرام كى مختلف آراء ہيں، معروف آئمہ كرام مثلا امام احمد وغيرہ كا فتوى پڑھ كر ظاہر يہ ہوتا ہے كہ دليل كى بنا پر صحيح يہى ہے كہ نماز ترك كرنا كفر ہے، جس كى بنا پر انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، ليكن اس كے خلاف بھى ايك رائے پائى جاتى ہے جو ميں سمجھ نہيں سكا:
چنانچہ امام شافعى اور امام مالك رحمہما اللہ اور دوسرے علماء كہتے ہيں كہ: اسے قتل تو كيا جائيگا، ليكن وہ كافر نہيں، تو اس طرح وہ مسلمانوں كے قبرستان ميں بھى دفن ہو گا، ليكن اگر كسى شخص كو نماز ترك كرنے كى بنا پر قتل كيا جائے اور اسے توبہ كرنے كے ليے تين دن كى مہلت بھى دى گئى ہو تو وہ شخص مسلمان كيسے شمار ہو گا ؟
اس شخص نے موت كو نماز ادا كرنے پر فضيلت دى، جبكہ واجب يہ ٹھرا كہ وہ كافر ہے، ميرى گزارش ہے كہ اس كى وضاحت كريں.
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

حقيقت يہ ہے كہ سائل كے ذكر كردہ اشكال قوى ہيں، ليكن جو شخص اسے كافر نہيں كہتا اس كے پاس اس كى معتبر تخريج موجود ہے، اسى ليے شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے اسے متاخرين فقھاء كے ہاں فاسد سے تعبير كيا ہے، جسے صحابہ كرام تو جانتے تك نہ تھے، كيونكہ ـ جيسا كہ سائل نے بيان كيا ہے ـ جس شخص كے دل ميں رتى برابر بھى اسلام ہو وہ نماز ترك كر كے اپنے آپ كو تلوار كے سامنے پيش نہيں كرتا، اور يہ اعتراض تارك نماز كو كافر قرار دينے والے پر وارد نہيں ہوتا، ہم شيخ الاسلام رحمہ اللہ كى كلام پڑھتے ہيں تا كہ موضوع كى وضاحت ہو جائے اور اشكال بھى زائل ہو:

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جو شخص اس كى فرضيت كا اعتقاد ركھتے ہوئے نماز ترك كرنے پر اصرار كرے، تو فقھاء كرام ميں فروعات بنانے والوں كئى ايك فروع بيان كى ہيں:

پہلى يہ ہے كہ: جمہور علماء امام مالك، شافعى، اور احمد كے ہاں يہ قول ہے كہ اگر اسے قتل تك بند كيا جائے تو كيا وہ كافر اور مرتد ہونے كى بنا پر قتل ہو گا يا كہ مسلمانوں ميں سے فاسق كى طرح ؟ اس ميں دو مشہور قول ہيں، جو دونوں امام احمد سے روايتيں بيان كى گئى ہے.

اور يہ فروعات صحابہ كرام سے منقول نہيں، اور يہ فاسد ہيں!!

چنانچہ اگر وہ باطن ميں نماز كا اقرار اور اس كى فرضيت كا اعتقاد ركھے تو يہ ممكن ہى نہيں كہ وہ قتل ہونے تك ترك نماز پر اصرار كرے، بنو آدم اور ان كى عادات ميں يہ معروف نہيں! اس ليے اسلام ميں يہ كبھى واقع نہيں ہوا، اور نہ ہى يہ معروف ہے كہ كوئى شخص اس كى فرضيت كا اعتقاد ركھے اور اسے كہا جائےكہ: اگر تم نے نماز ادا نہ كى تو تمہيں قتل كر ديا جائيگا، اور وہ نماز كى فرضيت كا اعتقاد ركھتے ہوئے ترك نماز پر اصرار كرے، ايسا اسلام ميں كبھى نہيں ہوا.

اور جب بھى كوئى شخص قتل تك نماز ادا نہ كرے تو وہ باطن ميں نماز كى فرضيت كا اعقتاد نہيں ركھتا، اور نہ ہى وہ اسے ادا كرنے التزام نہيں كرتا تو مسلمانوں كے اتفاق كے مطابق يہ شخص كافر ہے، جيسا كہ صحابہ كرام سے آثار ميں اس كا كفر ثابت ہے، اور اس پر صحيح دلائل دلالت كرتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بندے اور كفر كے درميان نماز كے علاوہ كوئى چيز نہيں " صحيح مسلم

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" ہمارے اور ان كے درميان جو عہد ہے وہ نماز ہے، چنانچہ جس نے نماز ترك كى اس نے كفر كا ارتكاب كيا "

اور عبد اللہ بن شقيق كا قول ہے: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نماز كے علاوہ كسى اور عمل كو ترك كرنا كفر نہيں سمجھتے تھے "

چنانچہ جو شخص بھى موت تك نماز ترك كرنے پر مصر ہو اور اس نے اللہ كے ليے كبھى سجدہ نہ كيا ہو تو يہ كبھى مسلمان نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس نے نماز كى فرضيت كا اقرار كيا ہے، كيونكہ نماز كى فرضيت كا اقرار اور نماز كا تارك قتل كا مستحق ہے يہ اعتقاد ركھنا نماز كى ادائيگى كى طرف دعوت ديتا ہے، اور قدرت و استطاعت كے ساتھ داعى مقدور چيز كے فعل كو واجب كرتا ہے، چنانچہ اگر قادر شخص نے كبھى بھى وہ فعل نہ كيا تو يہ معلوم ہوا كہ اس كے حق ميں داعى ہے ہى نہيں... اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 22 / 47 - 49 ).

سائل سے گزارش ہے كہ وہ سوال نمبر ( 2182 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد

متعلقہ جوابات