جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

بيس روز كے ليے سفر كيا اور نماز قصر كرتے رہے تو كيا ان پر قضاء لازم آتى ہے ؟

60358

تاریخ اشاعت : 04-09-2006

مشاہدات : 9681

سوال

گرميوں كى چھٹيوں ميں ہم بيس روز كے ليے سيروسياحت كى غرض سے گئے اور اس مدت ميں ہم نماز قصر كرتے رہے، كيونكہ صحابہ كرام رضى اللہ عنہم اپنى تفريح كے سفر اور چھ ماہ كى مدت ميں بھى قصر كرتے رہے ہيں، كيا يہ كلام صحيح ہے ؟ اور كيا ہمارے ذمہ گزشتہ ايام كى قضاء ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جمہور علماء كا مسلك ہے كہ مسافر جس علاقے ميں گيا ہے وہاں پر جب تك چار يا اس سے زيادہ روز اقامت كى نيت نہيں كرتا اس وقت تك اس كے ليے سفر كى رخصت پر عمل كرنا جائز ہے، چاہے وہ سفر علاج كے ليے ہو يا ملازمت اور كام كاج كے ليے، يا پھر سيروتفريح وغيرہ كے ليے.

آپ سوال نمبر ( 21091 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے مشہور يہى ہے كہ وہ مدت جس ميں اقامت كى نيت سے نماز پورى ادا كرنا لازم ہے وہ اكيس نمازوں سے زيادہ ہے.

اور ان سے يہ بھى مروى ہے كہ: جب مسافر چار يوم كى اقامت كى نيت كرے تو نماز پورى ادا كرے گا، اور اگر اس سے كم كى نيت كرتا ہے قصر كرے گا، امام مالك اور شافعى رحمہما اللہ كا قول يہى ہے" انتہى

المغنى ابن قدامہ ( 2 / 65 ).

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" اصل يہ ہے كہ بالفعل مسافر كے ليے چار ركعتى نماز قصر كرنے كى رخصت ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جب تم زمين ميں سفر كرو تو تم پر نماز قصر كرنے ميں كوئى گناہ نہيں الآيۃ

اور اس ليے كہ يعلى بن اميہ رحمہ اللہ كا قول ہے: وہ كہتے ہيں ميں نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہما كو كہا:

تم پر نماز قصر كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر تمہيں خدشہ ہو كہ كافر تمہيں فتنہ ميں ڈال دينگے.

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

ميں نے اسى چيز سے تعجب كيا جس سے تم تعجب كر رہے ہو، اور رسول ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:

" يہ صدقہ ہے جو اللہ تعالى نے تم پر صدقہ كيا ہے، چنانچہ تم اللہ تعالى كا صدقہ قبول كرو "

اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے.

اور مسافر بالفعل جو چار دن اور راتيں يا اس سے كم اقامت اختيار كرے اس كے حكم ميں معتبر ہو گا، كيونكہ حديث ميں ثابت ہے كہ:

جابر اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم حجۃ الوداع كے موقع پر چار ذوالحجہ كى صبح مكہ پہنچے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چار، پانچ، چھ اور سات كى اقامت اختيار كى اور آٹھ كى فجر نماز ابطح ميں ادا كى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان ايام ميں نماز قصر كرتے رہے"

اور انہوں نے اقامت كى نيت كر ركھى تھى جيسا كہ معلوم ہے، چنانچہ جو شخص بھى مسافر ہو اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقامت جتنى مدت كى اقامت اختيار كرنے كى نيت كرے يا اس سے كم تو وہ نماز قصر كرے گا، اور جس نے اس سے زيادہ اقامت كى نيت كى وہ نماز پورى ادا كرے گا كيونكہ وہ مسافر كے حكم ميں نہيں.

ليكن جو شخص اپنے سفر ميں چار يوم سے زيادہ ايام كى اقامت اختيار كرے اور اس نے اقامت كى نيت نہ كى ہو، بلكہ اس كا عزم اور ارادہ ہو كہ جب اس كى حاجت اور ضرورت پورى ہو گئى وہ واپس پلٹ جائيگا؛ مثلا جو شخص ميدان جھاد ميں ہو، يا پھر حكمران يا بيمارى وغيرہ نے اسے روك ليا ہو، يا سامان تجارت كى فروخت نے روك ركھا ہو، تو يہ شخص مسافر شمار ہو گا، اور اسے چار ركعتى نماز قصر كرنے كا حق ہے، چاہے مدت كتنى بھى لمبى ہو جائے.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم فتح مكہ كے موقع پر انيس روز تك نماز قصر كرتے رہے، اور غزوہ تبوك كے موقع پر نصارى سے جھاد كے ليے بيس روز تك رہے، اور صحابہ كرام كو قصر نماز پڑھاتے رہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رہنے اور اقامت كى نيت نہيں كى تھى، بلكہ سفر كى نيت پر تھے كہ جب اپنى ضرورت پورى كر ليں گے واپس پلٹ جائينگے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 109 ).

دوم:

جيسا كہ سوال ميں بيان كيا گيا ہے كہ صحابہ كرام چھ ماہ تك تفريح كے ليے نكلتے، ايسا بالكل نہيں صحابہ كرام كبھى بھى چھ ماہ تك تفريح كے ليے نہيں نكلے، ليكن صحابہ كرام كا سفر تو جھاد اور طلب علم اور رزق حلال كے حصول كے ليے ہوتا تھا، يا دوسرى دينى اور دنياوى مصلحتوں كى خاطر، ان ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما شامل ہيں جو آذربائجان ميں چھ ماہ تك رہے، كيونكہ ان كے راستے ميں برف حائل تھى اس صورت ميں وہ نماز قصر كرتے رہے.

سوم:

سفر كے شبہ والى مدت ميں آپ نے جو نمازيں قصر كى ہيں آپ كے ذمہ ان كى قضاء نہيں.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

سعوديہ كى جانب سے جرمنى ميں ايك شخص كو سفارت خانہ ميں مبعوث كيا گيا جو تقريبا ڈيڑھ برس سے نماز قصر كرتا رہا ہے اس كا حكم كيا ہے ؟

تو كميٹى كا جواب تھا:

" سفر كے شبہ كى بنا پر آپ پر قصر كر كے يا پھر وقت سے مؤخر كر كے ادا كردہ نمازوں كى قضاء نہيں، يا جو نمازيں آپ نے جمع كى ہيں ان كى قضاء نہيں ہے.

ليكن مستقبل ميں آئندہ آپ پر چار ركعتى نماز ميں چار ركعت اور ہر نماز اس كے وقت ميں ادا كرنا واجب ہے؛ كيونكہ آپ كے ليے سفر كا حكم نہيں اس كا سبب يہ ہے كہ آپ نے اقامت كا عزم كر ركھا ہے جو قصر وغيرہ كرنے ميں مانع ہے، وہ يہ كہ چار يوم سے زيادہ اقامت كا عزم كيا جائے تو قصر نہيں ہو سكتى.

آپ كو چاہيے كہ اگر ميسر ہو تو نماز باجماعت ادا كريں، اور اكيلے نماز نہ ادا كريں " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 155 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب