اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اس نے اپنے متعلق كہا كہ ( اگر اس نے سگرٹ نوشى كو تو اس پر اللہ كى لعنت ) پھر سگرٹ نوشى كر لى

6262

تاریخ اشاعت : 13-08-2005

مشاہدات : 5362

سوال

كيا مسلمان كے ليے اللہ كى قسم اٹھانا جائز ہے كہ وہ كبھى بھى سگرٹ نوشى نہيں كرے گا، مثال كے طور پر، اور اگر اپنى قسم پورى نہ كرے تو اس پر اللہ تعالى كى لعنت، ( مثلا يہ كہے: اگر اس نے دوبارہ سگرٹ نوش كيا تو اس پر اللہ كى لعنت )؟
اگر يہ جائز نہيں تو جس نے ايسا جہالت ميں كر ليا ہو اسے كيا كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آدمى كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے اوپر لعنت كرے، اور اللہ تعالى كے غضب كى قسم اٹھائے، اور كفر، دين سے خروج اور اسلام سے ارتداد كى قسم اٹھانا بھى جائز نہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ:

1 - اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اگر اللہ لوگوں پر جلدى سے نقصان واقع كر ديا كرتا جس طرح وہ فائدہ كے ليے جلدى مچاتے ہيں، تو ان كا وعدہ كبھى كا پورا ہو چكا ہوتا يونس ( 11 ).

قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مجاہد رحمہ اللہ كا قول ہے: يہ آيت اس شخص كے متعلق نازل ہوئى جو اپنے يا اپنے مال يا اولاد كے ليے بددعا كرتا ہے، جب غصہ ميں آئے تو كہتا ہے: اے اللہ اسے تباہ كردے، اے اللہ اس ميں بركت نہ كر، اور اس پر لعنت كر، يا اس طرح كى اور كوئى بددعا كرے، تو اگر اس كى يہ دعا قبول ہو جائے جس طرح خير و بھلائى كى دعا قبول ہوتى ہے تو ان كا كام پورا ہو چكا ہوتا، تو يہ آيت مذموم اخلاق كے مالك كے بارہ ميں نازل ہوئى، وہ لوگ جلدى قبوليت چاہتے ہيں، اور پھر بعض اوقات مذموم اخلاق اسے بددعا كرنے پر ابھارتا ہے اور اگر ان كى دعا جلد قبول ہو جائے تو وہ دوبارہ ہلاك ہو جائيں.

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 8 / 315 ).

2 - ثابت بن ضحاك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے اسلام كے علاوہ كسى اور ملت پر قسم اٹھائى تو وہ ايسا ہى ہے جيسا اس نے كہا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5700 ).

3 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو اپنے تيز نہ چلنے والے اونٹ كو لعنت كر رہا تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كون ہے جو اپنے اونٹ پر لعنت كر رہا ہے؟

اس شخص نے كہا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ہوں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اس سے اتر جاؤ، ہمارے ساتھ ملعون نہ چلے، اور تم اپنے اوپر بددعا نہ كيا كرو، اور نہ ہى اپنى اولاد كے ليے بد دعا كرو، اور نہ ہى اپنے مال كے ليے بددعا كرو، اگر اللہ تعالى كى طرف سے قبوليت كا وقت ہو تو تمہارى دعا قبول كر لى جائےگى"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 3014 ).

دوم:

جو شخص ايسا كرے اسے كيا كرنا چاہيے؟

اس مسئلہ ميں علماء كرام كے مابين اختلاف ہے، بعض علماء كہتے ہيں كہ اس پر كفارہ ہے، اور دوسرے علماء كا كہنا ہے كہ اس پر كفارہ نہيں.

عبد الرزاق رحمہ اللہ تعالى نے مصنف عبد الرزاق ميں سلف رحمہ اللہ تعالى سے اس كے متعلق بعض آثار نقل كيے ہيں:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ انہوں نے ايسے شخص كے متعلق كہا: جو يہ كہے وہ يہودى يا نصرانى يا مجوسى يا اسلام سے برى ہے يا اس پر اللہ كى لعنت يا اس پر نذر ہے، ابن كا كہنا ہے كہ يہ قسم مغلظ ہے"

مصنف عبد الرزاق حديث نمبر ( 15974 ).

طاؤوس رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جس شخص نے كہا: ميں كافر ہوں، يا ميں يہودى يا نصرانى يا مجوسى يا اللہ مجھے ذليل كرے، يا اس طرح كا كوئى كلمہ تو يہ قسم ہے، اس كا كفارہ ادا كرے"

مصنف عبد الرزاق حديث نمبر ( 15975 ).

ابن جريج رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ميں نے سنا كہ ايك شخص عطاء رحمہ اللہ تعالى سے كہہ رہا تھا: ايك شخص نے كہا كہ: مجھ پر اللہ كا غضب ہو، يا اللہ مجھے ذليل و رسوا كرے يا كسى چيز كى اپنے خلاف دعا كى تو كيا ميں كفر كا مرتكب ہو جاؤنگا؟

عطاء رحمہ اللہ تعالى نے جواب ديا:

اگر تم ايسا كرو تو مجھے يہ پسند ہے، اس نے كہا اگر ميں ايسا نہ كروں، تو عطاء نے كہا: تجھ پر كچھ لازم نہيں يہ قسم نہيں ہے"

مصنف عبد الرزاق حديث نمبر ( 15977 ).

اور ابن جريج رحمہ اللہ تعالى عنہ ہى سے روايت ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے سنا كہ عطاء رحمہ اللہ تعالى سے آدمى كے اس قول كے متعلق سوال كيا گيا: ميں اللہ تعالى سے وعدہ اور عہد كرتا ہوں، اور پھر وہ اسے توڑ دے تو كيا يہ قسم ہے؟

عطاء رحمہ اللہ نے كہا: نہيں، ليكن اگر اس نے قسم كى نيت كى ہو، يا يہ كہے كہ اللہ تعالى مجھے ذليل و رسوا كرے، يا كہے: مجھ پر اللہ كى لعنت، يا كہے: ميں اللہ كے ساتھ شرك يا كفر كرونگا، يا اس طرح كا كوئى اور كلمہ، وہ كہتے ہيں: نہيں ( يعنى يہ قسم نہيں ہے ) مگر جو اللہ كى قسم كھائى جائے"

مصنف عبد الرزاق حديث نمبر ( 15978 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نے اسے راجح قرار ديا ہے كہ: كفارہ كے وجوب كى دليل نہ ہونے كى بنا پر اس كے ذمہ كفارہ نہيں ہے.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 13 / 465 ).

اور ہم نے فضيلۃ الشيخ عبد الرحمن بن جبرين حفظہ اللہ تعالى سے اس مسئلہ كے متعلق دريافت كيا تو ان كا كہنا تھا:

يہ قسم نہيں ہے، اور نہ ہى اس كے ذمہ كفارہ ہے، اسے اللہ تعالى سے اس پر توبہ كرنى چاہيے. اھـ

اور اگر مسلمان احتياط سے كام ليتا ہوا قسم كا كفارہ ادا كر دے تو يہ زيادہ بہتر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب