اتوار 2 جمادی اولی 1446 - 3 نومبر 2024
اردو

خاوند کے رشتہ داروں کی بیوی کی زندگی میں دخل اندازی کی حد کیا ہے

6388

تاریخ اشاعت : 24-08-2004

مشاہدات : 25811

سوال

اسلام میں خاوند کے بہن بھائيوں کے کیا حقوق ہیں ، کیا ساس اورسسر کی طرح خاوند کے بھائیوں کا بھی اطاعت کا حق ہے ؟
کیا انہیں میرے کمرے میں انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اجازت یا بغیر اجازت داخل ہوں ؟
میں کس حد تک ان کی اطاعت کروں کپڑے دھونے ، اورکھانا وغیرہ تیار کرنے اوراپنے بچوں کی دیکھ بھال اورگھرسے نکلنے میں بھی ان کی اطاعت ہے ، اورکیا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہماری ازدواجی زندگي میں دخل اندازي کریں ؟
کیا ہمارے کام اوررہن سہن ، تعلیم و تربیت وغیرہ میں بھی ان کا حق ہے ، اورکیا مجھے اپنے میکے جانے کے لیے ان کی اجازت درکار ہوگي ؟
اورکیا انہیں ہماری زندگي کی تفصیل کی معرفت کا بھی حق ہے ، اورکیا میں اپنے خاوند کے رشتہ داروں سے مصافحہ کرنے میں ان کی اطاعت کروں ؟
اورکیا میرے اورخاوند کے لیے ایسی شادیوں میں جانا جائز ہے جہاں برائي ہو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بیوی پرخاوند کے رشتہ داروں کی اطاعت کرنا واجب نہیں چاہے وہ ساس ہو یا سسر ، یا پھر نند ہویا دیور ان کی کسی بھی چيز میں اطاعت کرنی واجب نہیں لیکن اگر وہ کسی واجب اورشرعی چیز کا حکم دیں یا کسی غیرشرعی اورحرام چیز سے روکیں تو پھر اس میں اطاعت واجب ہے چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہو یا دورکا یا کوئي اوربھی کیوں نہ ہو ۔

اورخاوند کی اطاعت توبیوی پرواجب ہے اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سےاللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں ۔۔ النساء ( 34 ) ۔

ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی خاوند کے بیوی پرحقوق کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہيں :

بلاشبہ اللہ تعالی نےبیوی پرخاوند کا حق اوراس کی اطاعت واجب کی ہے ، اوربیوی پر خاوند کی نافرمانی حرام ہے اس لیے کہ اسے اللہ تعالی نے بیوی پر فضيلت دی ہے ۔ اھـ تفسیر ابن کثیر ( 1 / 493 ) ۔

آپ کے دیوروں میں کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ آّپ کی اجازت کے بغیر آپ کے کمرہ یا پھر گھر میں داخل ہو ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اے ایمان والو ! تم اپنے گھروں کے علاوہ کسی اور کے گھر میں اس وقت تک نہ جاؤ‎ جب تک کہ تم اجازت نہ لے لو اوروہاں کے رہنے والوں کوسلام نہ کرلو ، یہی تمہارے لیے بہتراوراچھا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو النور( 27 )

اوراگران میں سے کوئي بھی آپ کے اجازت سے گھر میں داخل ہو اوروہ آپ کا محرم بھی نہيں مثلا دیور تو اس میں شرط ہے کہ آپ کے محرم کا موجود ہونا ضروری ہے تا کہ آپ کے درمیان خلوت پیدا نہ ہو جو کہ حرام ہے ، اورپھرآپ بھی شرعی پردہ میں ہوں اورفتنہ کا بھی ڈر نہ ہو ۔

ان شروط کے باوجود افضل اوربہتر اوردل کوصاف رکھنے اورشک وشبہ سے بچنے کےلیے بہتر تویہ ہے کہ وہ آپ کے کمرہ میں نہ داخل ہوں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورجب تم نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں سے کوئي چيز طلب کرو توپردے کے پیچھے سے طلب کرو تمہارے اوران کے دلوں کے لے کامل پاکیزگی یہی ہے الاحزاب ( 53 ) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( تم عورتوں کے پاس جانے سے بچو ، ایک انصاری آدمی کہنے لگا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ دیور کے بارہ میں توبتائيں ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیور تو موت ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5232 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2172 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( دیور تو موت ہے ) کا معنی ہے کہ دوسروں سے زيادہ اس سے خدشہ اوربرائي اورفتنہ اس سے زیادہ متوقع ہے ، اس لیے کہ عورت کے پاس جانے اوراس سے خلوت کرنا اس کے لیے ممکن ہے اوریہ ایسا معاملہ ہے کہ اس پر کوئي انکار بھی نہیں کرتا لیکن اگر کوئي اجنبی ہوتو اس کے لیے یہ ممکن نہیں ۔

اورحمو سے مراد خاوند کے آباء واجداد اوراولاد کے علاوہ دوسرے رشتہ دار مراد ہیں ، خاوند کے آباء واجدا اوراس کی اولاد توبیوی کے لیے محرم ہیں ان کے لیے خلوت جائز ہے ، جنہیں موت کا وصف نہیں دیا جاسکتا ، بلکہ اس سے مراد خاوند کے بھائي ، بھتیجھے ، چچا ، اور چچا کے بیٹے وغیرہ جوکہ اس کے محرم نہیں وہ مراد ہیں ۔

اوران کے بارہ میں لوگوں کوتساہل کی عادت ہے ، اوربھابھی اپنے دیور سے خلوت کرتی ہے ، اوریہی موت ہے ، اوراجنبی سے بھی اس کا منع کرنا اولی ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے ۔ ا ھـ ۔

ان سب کے لیے یہ جائز نہيں اورنہ ہی ان کا حق ہے کہ آپ کوان کاموں پر جوآپ نے ذکر کیے ہیں مجبور کریں مثلا کھانا پکانے یا پھر آپ کے لباس کےبارہ میں یا اس کے علاوہ کوئي اورکام اورتعلیم وتربیت وغیرہ ۔۔ صرف یہ ہے کہ وہ بطور نصیحت اوراچھی بود باش کے لیے وہ آپ کواس کے بارہ میں کہہ سکتے ہیں نہ کہ اجباری طور پر ۔

اوران کے لیے یہ بھی جائز نہيں کہ وہ آپ اورآپ کے خاوند کے خصوصی معاملات میں دخل اندازي کریں ، لیکن اگر انہوں نے آپ کے خاوند کواس پر مطمئن کرلیا کہ آپ مباح اورجائز قسم کی راحت حاصل کرنے کے لیے بھی گھرسے نہ نکلیں اورخاوند آپ کوگھرمیں ہی رہنے کا کہے توپھر آپ اپنے خاوند کی اطاعت کریں اورصبر کرتےہوئے اللہ تعالی سے ثواب کی نیت کریں ۔

اپنے میکے جانے کے لیے بھی آپ پر یہ لازم نہیں کہ آپ ان میں سے کسی ایک سے اجازت طلب کریں اورنہ ہی ان کا یہ حق ہے ، بلکہ آپ پر واجب آپ پرواجب تویہ ہے کہ اپنے خاوند سے اجازت لیں اگر وہ اجازت دیتا ہے توپھر ان میں سےکسی ایک سےبھی اجازت لینی واجب نہیں ۔

اوراسی طرح وہ آپ دونوں کی ازدواجی زندگي کی تفصیلات کی معرفت کا بھی کوئي حق نہيں رکھتے ، اورآپ کے خاوند کے لیے یہ جائزنہیں کہ وہ آپ اوراس کے مابین استمتاعی راز انہیں بتائے ۔

آپ کے خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین کی ساتھ حسن سلوک اورنیکی کرے ، اورآپ کوبھی اس میں اس کا مدگار معاون بننا چاہیے ، اورآپ اپنے خاوند اوراس کے والدین کے درمیان قطع تعلقی کا سبب بننے کی کوشش نہ کریں ، بلکہ صلہ رحمی میں اس کا تعاون کریں ، ان شاءاللہ آپ کواس انجام اورنتیجہ اپنی اولاد میں پائيں گی ۔

آپ کے خاوند کوچاہیے کہ وہ اپنے والدین کی ضرورت کے مطابق زيارت کرتا رہے اورانہیں ملتا رہے ، ہوسکتا ہے کہ والدین کواپنے بیٹے کی زيادہ ضرورت ہو مثلا وہ بیمار ہوں توآپ کے خاوند کواس کا خیال رکھنا چاہیے ۔

ساس اورسسر کی خدمت کرنا آپ پر واجب تونہیں لیکن اگرآپ ان کے ساتھ حسن سلوک اوراحسان کرتے ہوئےاوراپنے خاوند کوخوش کرنے کے لیے کرتی ہیں تو یہ آپ کے لیے بہتر اور اچھا ہے ، اللہ تعالی ان شاء اللہ آپ کواس کا اجر عظيم عطا فرمائے گا ، اورپھر اس وجہ سے آپ اپنے خاوند اوراس کے گھروالوں کے سامنےدنیا میں بھی ایک مقام حاصل کریں گی ، اوران شاء اللہ آخرت میں بھی آپ کے درجات بلند ہوں گے ۔

اورمستقل رہائش کے بارہ میں گزارش یہ ہے کہ آپ کے خاوند پرواجب ہےکہ وہ آپ کے لیے ایسی رہائش کا انتظام کرے جس میں آپ مستقل طور پر رہ سکیں ، لیکن اس میں بھی کوئي حرج نہیں کہ اگر گھر بہت بڑا اورکھلا ہے اوراس میں آپ سب رہ سکتے ہوں تووالدین اورآپ اکٹھے رہیں اس میں آپ پر کوئي ضرور اورنقصان نہیں ۔

اوریہ کہ آپ کی زندگي ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کے ماتحت رہے توآپ کی ساس اورسسر کویہ حق نہيں کہ وہ آپ دونوں پر مسلط ہوئے رہیں ، آپ اپنے خاوندکواچھے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کریں ، اگر تووہ اس معاملہ کوختم کرسکے تو اچھی بات وگرنہ اس میں بھی کوئي حرج نہیں کہ آپ اس کے گھر والوں سے حکمت ودانش مندی سے بات کریں ، اوراگرپھر بھی وہ نہ مانیں توآپ صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں اوراللہ تعالی سے اجرو ثواب کی نیت رکھیں ۔

آپ کا اپنے محرم مردوں کے علاوہ دوسروں سے مصافحہ کرنا حرام ہے ، اس میں آپ کسی کی بھی بات نہ مانیں ، اس لیے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی بھی اطاعت نہیں ، آپ اجنبی عورت کے مصافحہ کے بارہ میں حکم جاننے کے لیے سوال نمبر ( 21183 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔

آپ اورآپکے خاوند کے لیے حلال نہیں کہ وہ شادی کی ایسی تقریبات میں شرکت کرے جہاں پر معاصی اورگناہ کے کام ہوں ، آپ اس کی مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 10957 ) کے جواب کا مراجعہ کریں ۔

اورآخری بات یہ ہے کہ ۔۔۔

خاوندوں کوہماری یہ نصیحت ہے کہ وہ اپنے والدین کےساتھ حسن سلوک اور نیکی اوران کی اطاعت کریں اورجب وہ اللہ تعالی کی حدود پھلانگنے لگیں تواس میں ان کی اطاعت نہ کریں اورنہ ہی ظلم کرنے پر ان کی معاونت کریں ، اور اس ظلم میں بہو پرظلم بھی شامل ہے ۔

خاوندوں کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین سے احسن انداز میں مجادلہ اورگفتگو کریں ، اوراللہ تعالی اطاعت اوران کے درمیان حائل ہونے کی کوشش نہ کریں ، اورانہیں حق کے بارہ میں جرات مند ہونا چاہیے ، اورجولوگ ان کے گھروں میں شریعت کی تطبیق اوراسے نافذ کرنے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں انہیں ان کا مقابلہ کرنا چاہیے ، اس لیے کے مسلمان توسوائے قرآن اورسنت کے علاوہ کسی کے سلطہ کوتسلیم نہیں کرتا ، اورانہیں ان لوگوں سے احتراز کرنا اوربچنا چاہیے جوانہیں برائي کی دعوت دیتے ہیں ۔

اوراگرخاوند یہ دیکھے کہ شرعی مصلحت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کے گھروالوں اوربیوی کے گھرمیں دوری ہونی چاہیے توایسا کرنے میں کوئي حرج اورنقصان نہیں بلکہ اسے ایسا کرنا چاہیے ۔

اورہمارے اخلاق اورسینے کھلے اوروسیع ہونا ضروری ہیں ، اورہمارے اندر ایک دوسرے کے لیے برداشت کا مادہ بھی ہونا چاہیے ، اورآپس میں ایک دوسرے کے فضل کونہیں بھولنا چاہیے ، اورہمیں نیکی کا حکم کرنا اورصبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، اوربرائي اوربرے سلوک کونیکی اوراچھے سلوک سے ختم کرنا چاہیے ، اوراللہ تعالی کے بندوں کو ہم وہ بات کہیں جواچھی ہو تا کہ ہم اللہ تعالی سے بھی اچھی ملاقات کرسکیں ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ سب کے حالات کی اصلاح فرمائے ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب