جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کافرشخص کا مسلمان عورت سے شادی کے بعد اسلام قبول کرنا

6402

تاریخ اشاعت : 16-03-2005

مشاہدات : 11204

سوال

ایک ھندو نے مسلمان بیوہ سے شادی کی اورکچھ سال بعد بیوی کے حسن سلوک کودیکھتے ہوئے اسلام قبول کرلیا تو کیا انہيں نکاح دوبارہ کرنا ہوگا یا پہلا نکاح ہی قائم ہے ؟
ھندوستان میں مسلمان اجروثواب حاصل کرنےاورحادثات سے بچنے کےلیے 4444 بارصلاۃ ناری پڑھتے ہیں ، حالانکہ ہم نےانہیں یہ بات سمجھائي ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ہی کافی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے ۔
ہمیں یہ عمل نہیں کرنا چاہیے لیکن وہ ابھی تک اس پر عمل پیرا ہیں اورکہتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئي حرج نہيں ۔
توکیا یہ صلاۃ پڑھنا جائز ہے ، آپ اس کی وضاحت فرمائيں کہ اس میں کوئي شرک تونہیں پایا جاتا جوصلاۃ ناریہ کے معنی میں ہو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - مسلمان عورت کا کسی بھی کافر شخص سے شادی کرنا شرعی طور پر باطل اورحرام ہے اوران کے آپس میں تعلقات بھی زنا شمار ہوں گے ، ان پر اللہ تعالی کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے علیحدگي واجب ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

اورمشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتیں نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہیں لاتے ، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے گومشرک تمہیں اچھا ہی کیوں نہ لگے ، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اوراللہ تعالی اپنے حکم سے جنت اوراپنی بخشش کی طرف بلاتا ہے البقرۃ ( 221 ) ۔

اوراللہ تعالی نے کافروں کے لیے مسلمان عورت کے حلال نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے :

نہ تو وہ ( مسلمان عورتیں ) ان کافر مردوں کے لیے اور نہ ہی وہ ( کافر مرد ) ان ( مسلمان عورتوں ) کے لیے حلال نہیں الممتحنۃ ( 10 ) ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب الجامع لاحکام القرآن میں کہتے ہيں:

امت کا اس پر اجماع ہے کہ مشرک مرد مسلمان عورت سے شادی نہيں کرسکتا کیونکہ اس میں اسلام کی پستی توہین پائي جاتی ہے ۔

دیکھیں الجامع لاحکام القرآن ( 3 / 72 )

اورجب شخص اسلام قبول کرلے – جیسا کہ سوال میں بھی ہے – تواسے چاہیے کہ وہ دوبارہ نکاح کرے کیونکہ اس کا پہلا نکاح تو باطل تھا اوروہ شریعت میں کوئی معتبر نہيں ۔

شیخ عطیہ محمد سالم رحمہ اللہ تعالی اضواء البیان کی تکمیل میں کہتے ہیں :

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب کی کافرہ عورت مسلمان مرد کےلیے کیوں حلال ہے اورمسلمان عورت اہل کتاب کافر کے لیے حلال کیوں نہيں کی گئي؟

اس کا جواب دو لحاظ سے ہے :

اول : اسلام بلندی اختیار کرنے والا دین ہے اوراس پر کوئي اورغالب نہيں آسکتا ، اورشادی میں مرد کو عورت پر فوقیت اورسربراھی حاصل ہے کیونکہ مرد میں رجولیت پائي جاتی ہے ، اورپھر یہ ہوسکتا ہے کہ مرد اپنی بیوی پر اثر انداز ہو جس کی بنا پر عورت اپنے دین پر عمل نہ کرسکے اوراس کے واجبات کی ادائيگي نہ کرپائے ، اوراس کی وجہ سے وہ مکمل طور پرہی دین کو چھوڑ دے ، اوراسی طرح اولاد بھی دین میں اپنے والد کے تابع ہو گی ۔

دوسرا جواب :

اسلام ایک شامل اورکامل دین ہے لیکن اس کے علاوہ باقی ادیان ناقص ہیں ، اوراس پرہی اجتماعیت کی بنیاد ہے جو خاندان کی طبیعت اورحسن معاشرت پر بھی اثرانداز ہوتا ہے ، وہ اس طرح کہ جب مسلمان شخص کسی کتابی لڑکی سے شادی کرے گا تو مسلمان اس لڑکی کی کتاب اور رسول پر ایمان رکھتا ہے ، تو اس طرح وہ اس کے دین پرمجمل ایمان رکھنے کی بنا پراس کے دین اورمبادیات کا احترام کرے گا جو کہ آپس میں تفاھم اورسمجھنے سمجھانے کا ذریعہ ہے ، اوراسی بنا پروہ عورت اپنی کتاب کی بنا پر اسلام قبول کرلے گی ۔

لیکن اگر اہل کتاب کے کسی کافر نے جب مسلمان عورت سے شادی کی جو کہ عورت کے دین پر ایمان ہی نہیں رکھتا ، تو اس لیے مسلمان عورت اس سے اپنے دین اور مبادیات کا احترام نہیں پائے گی ، تو اس طرح ان کی آپس میں نہيں بن پائے گي اوروہ تفاھم اختیار نہیں کرسکیں گے کیونکہ وہ تو اس کے دین پر مکمل ایمان ہی نہیں رکھتا ۔

تواس طرح اس شادی کی مکمل طور پر کوئي ضرورت ہی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پراسے ابتدا میں ہی منع کردیا گيا ہے ۔ ا ھـ کچھ کمی بیشی کے ساتھ

دیکھیں اضواء البیان ( 8 / 164- 165 )

تواس لیے دوبارہ نیا نکاح کیا جائے ، واللہ تعالی اعلم ۔

اورصلاۃ ناری کے بارہ میں سوال کا جواب آپ سوال نمبر ( 7505 ) کے جواب میں دیکھیں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات