الحمد للہ.
مردوں كے ليے سونا پہننا حرام ہے.
عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كے ہاتھ ميں سونے كى انگوٹھى ديكھى تو اسے اتار كر پھينك ديا، اور فرمايا: تم ميں كوئى ايك آگ كا انگارہ لے كر اپنے ہاتھ ميں پہن ليتا ہے "
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہاں سے چلے گئے تو كسى نے اس شخص نے كہا: تم اپنى انگوٹھى اٹھا لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ تو وہ كہنے لگا:
اللہ كى قسم ميں اس انگوٹھى كو كبھى بھى نہيں اٹھاؤنگا جسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اتار كر پھينك ديا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2090 ).
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرى امت ميں سے جس نے بھى سونا پہنا اور اسى حالت ميں مر گيا تو اللہ تعالى نے اس پر جنت كا سونا حرام كر ديا، اور جس نے ميرى امت ميں سے ريشم پہنى اور اسى حالت ميں مر گيا تو اللہ تعالى اس پر جنت كى ريشم حرام كر ديگا "
اسے امام احمد نے روايت كيا ہے.
اور يہ حرمت مردوں كے ساتھ خاص ہے، عورتيں اس ميں شامل نہيں، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں مروى ہے.
على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دائيں ہاتھ ميں ريشم اور بائيں ہاتھ ميں سونا پكڑا اور پھر فرمانے لگے:
" يقينا يہ دونوں ميرى امت كے مردوں پر حرام ہيں "
اسے نسائى اور ابو داود نے روايت كيا ہے.
اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" ميرى امت كى عورتوں كے ليے ريشم اور سونا پہننا حلال اور مردوں پر حرام كيا گيا ہے "
اسے امام احمد نے روايت كيا ہے.
عورتوں كى نرم و نازك اور كمزورى اور رقت اور خوبصورتى و زينت ميں ا نكى ضرورت كى بنا پر سونا مباح كيا گيا.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
كيا جو زيورات ميں پليں، اور جھگڑے ميں ( اپنى بات ) واضح نہ كر سكيں الزخرف ( 18 ).
ليكن مردوں كے ليے سونا پہننا يہ ان كى مردانگى خلاف ہے، اور شريعتا سلاميہ دونوں جنسوں كے مابين فرق اورتميز كرنا چاہتى ہے، ان دونوں ميں خصائص عليحدہ ہيں، جن ميں اگر دونوں فريق مشابہت اختيار كريں تو فساد اور خرابى پيدا ہوتى ہے.
مردوں پر ہر قسم كا سونا چاہے وہ خالص سونا ہو، يا پھر مخلوط اور ٹكڑا يا جڑا ہو سب حرام ہے، ليكن سونے كا پانى چڑھى ہوئى چيز كے متعلق بعض علماء كرام حرام قرار ديتے ہيں، كہ اگر اسے عليحدہ كرنا اور اتارنا ممكن ہو ( مثلا اسے چھيل كر ) تو يہ حرام ہے، اور اگر ممكن نہ ہو پھر جائز ہے، اور بعض كہتے ہيں كہ اگر پانى عام يا زيادہ چڑھا ہو تو پھر اس كا پہننا جائز نہيں، ليكن اگر قليل مقدار ميں ہو ( مثلا گھڑى كى سوئيوں، يا پھر نمبروں ، يا منٹوں كے نقطوں پر ) تو پھراس كا پہننا جائز ہے.
ان كا كہنا ہے كہ معتبر تو وہ ہے جو ظاہر ہو، نہ كہ قيمت كے اعتبار سے، اس ليے اگر پانى ظاہر اور زيادہ ہو يا عام ہو تو پھر اسے پہننا جائز نہيں، پھر اس ميں اتہام بھى ہے، كيونكہ بہت سارے لوگ پانى چڑھا ہوا اور معدنيات ميں فرق اور امتياز نہيں كر سكتے، اور وہ اس طرح اس كى تقليد اور نقل كرتے ہوئے خالص سونا پہننے لگيں گے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 1 / 119 ) اور فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 254 ).
واللہ اعلم .