الحمد للہ.
جواب :اگرچہ كتابى عورت ( يعنى يہودى اور عيسائى ) سے شادى كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں بہت سارے خطرات پائے جاتے ہيں، جن ميں سب سے بڑا خطرہ اولاد كے دين كا ہے كيونكہ وہ عورت اپنے خاوند كى اولاد كو دين اسلام سے دور لے جانے كى كوشش كريگى، اور خاص كر جب وہ غير مسلم ملك ميں بستى ہو تو قانون بھى اس كے ساتھ ہے.
جب بچے ماں كو شراب نوشى كرتے ہوئے ديكھيں تو آپ اولاد كو كيسے مطمئن كر سكتے ہيں كہ شرام نوشى حرام ہے!!
اكثر علماء كرام كہتے ہيں كہ اگر كوئى شخص كسى كتابى عورت سے شادى كرے تو وہ اسے شراب نوشى سے روكے گا، اور خنزيز كا گوشت كھانے سے بھى منع كرےگا، شافعى اور حنبلى حضرات كے جمہور فقھاء كا مسلك يہى ہے، اور احناف كى ايك جماعت بھى اسى كى قائل ہے.
احناف كى كتاب: البحر الرائق " ميں بعض احناف سے منقول ہے كہ:
" مسلمان خاوند كو حق حاصل ہے وہ اپنى ذمى بيوى كو شراب نوشى سے بالكل اسى طرح روكےگا جس طرح وہ اپنى مسلمان بيوى كو پياز اور لہسن كھانے سے روكتا ہے كيونكہ اسے ناپسند ہو تو وہ مسلمان بيوى كو ايسا كرنے سے روك سكتا ہے، يہى حق ہے جو كسى پر مخفى نہيں " انتہى
ديكھيں: البحر الرائق ( 3 / 111 ).
اور شافعيہ كى كتاب " مغنى المحتاج " ميں درج ہے:
" نان و نفقہ اور تقسيم و طلاق كے مسائل ميں منكوحہ كتابى عورت بھى مسلمان عورت كى طرح ہے، اسے بھىحيض و نفاس اور جنابت سے غسل پر مجبور كيا جائيگا، اور خنزير كھانے سے روكا جائيگا، اور اسے اور مسلمان عورت دونوں كو اس كے نجس اعضاء دھونے پر مجبور كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: مغنى المحتاج ( 4 / 314 ).
اور حنابلہ كى كتاب " الانصاف " ميں درج ہے:
" ذمى عورت كو نشہ آور اشياء اور نشہ كرنے سے روكا جائيگا، صحيح مسلك يہى ہے كہ جب نشہ آور نہ ہو تو اسے اس سے نہيں روكا جائيگا ( امام احمد رحمہ اللہ نے يہى بيان كيا ہے ) اور امام احمد سے ايك روايت ميں ہے كہ: اسے مطلقا روكا جائيگا.
اور الترغيب ميں ہے: خنزير كھانے سے بھى اسى طرح منع كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 352 ).
مالكيہ كہتے ہيں كہ:
" خاوند كو حق نہيں كہ وہ كتابى بيوى كو شراب نوشى كرنے اور خنزير كھانے سے روكے "
ديكھيں: التاج و الاكليل ( 5 / 134 ).
اگر آپ اپنى بيوى كو بچوں كے سامنے شراب نوشى كرنے سے نہيں روك سكتے جيسا كہ آپ نے بيانكيا ہے كہ ہو سكتا ہے وہ طلاق كا مطالبہ كر دے اور اولاد كو لے كر چلتى بنے، تو اس صورت ميں آپ كو اپنى بيوى پر واضح كرنا چاہيے كہ آپس ميں حسن معاشرت اور حسن سلوك كا تقاضہ اور خاوند بيوى كے مابين بہتر اور اچھے تعلقات يہى ہو سكتے ہيں كہ تم بچوں كے سامنے شراب نوشى مت كيا كرو.
اور اگر وہ ايسا كرنے سے انكار كرتى ہے تو پھر آپ كو چاہيے كہ جب وہ اس برائى كے مرتكب ہو رہے ہوں تو آپ ان كے ساتھ مت بيٹھيں، بلكہ وہاں سے اٹھ جائيں، اس برائى سے انكار كا ايك طريقہ يہ بھى ہے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يقينا تم پر كتاب قرآن مجيد ميں يہ نازل كيا گيا ہے كہ جب تم اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر ہوتا سنو اور ان سے استھزاء و مذاق ہوتا ہوا سنو تو ان كے ساتھ اس وقت تك مت بيٹھو جب تك كہ وہ كسى اور بات ميں مشغول نہ ہو جائيں، اگر تم بيٹھو گے تو پھر تم بھى انہيں جيسو ہوگے، يقينا اللہ تعالى منافقوں اور كافروں كو اكٹھے جہنم ميں جمع كرنے والا ہے النساء ( 140 ).
جو شخص ہاتھ سے برائى كو نہ روك سكتا ہو اس كے ليے قاعدہ اور اصول يہى ہے كہ اگر استطاعت ركھتا ہو تو وہ اس جگہ سے اٹھ جائے وگرنہ وہ بھى گناہ ميں مجرم كے ساتھ برابر كا شريك ہوگا.
آپ كو صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے، اور اس بيوى كو دين اسلام كى دعوت كى ہر ممكن كوشش كريں، اور اپنے اخلاق و اعمال كے ساتھ اس كے ہاں دين اسلام كى محبت پيدا كريں.
ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ اس كى ہدايت كے ليے زيادہ سے زيادہ دعا كريں، كيونكہ دعا بہت عظيم ہتھيار ہے، ہو سكتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى اسے اور اس كے خاندان والوں كو آپ كے ہاتھ پر ہدايت نصيب فرما دے.
واللہ اعلم