الحمد للہ.
جب عورت حيض كا خون ديكھے تو وہ نماز روزہ ترك كر دے، اور اگر دوران حيض خون آنا بند ہو جائے تو پھر اس ميں ديكھا جائيگا كہ:
1 - اگر تو خون كا اثر باقى ہے، وہ اسطرح كہ اگر وہ روئى وغيرہ ركھے اور اس پر خون كا اثر ہو تو پھر ماہوارى ختم ہونے كا حكم نہيں لگايا جائيگا، بلكہ وہ نماز روزہ ترك كيے ركھےگى، چاہے يہ ماہوارى شروع ہوتے وقت ہو يا ماہوارى كے آخرى ايام ميں.
2 - اور اگر بالكل خون خشك ہو جائے، اور مكمل صاف ہو، اس طرح كہ اگر روئى ركھ كر نكالى جائے تو اس پر كسى بھى قسم كے خون كا اثر نہ ہو تو يہ ماہوارى ختم ہونے كى علامت ہے، اس طرح عورت پاك ہو گى اور وہ غسل كر كے نماز روزہ شروع كر دے، اور جس طرح دوسرى پاك عورتيں كرتى ہيں وہ بھى ان جيسے اعمال كرے، اور اگر پھر دوبارہ حيض آئے تو وہ نماز روزہ سے رك جائے.
حيض كى مدت ميں صاف شفاف ہونے سے طہر كا حكم مالكيہ اور شافعيہ كا مسلك ہے.
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 1 / 260 ).
سوال نمبر ( 37839 ) كے جواب ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا قول بيان ہو چكا ہے كہ:
" جب دوران حيض ايك دن يا رات خون رك جائے تو عورت كو غسل كر كے نماز ادا كرنى چاہيے، كيونكہ وہ پاك ہے، اس ليے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے:
" جب عورت خون غليظ اور گاڑھا خون ديكھے تو وہ نماز ادا نہيں كرےگى، اور جب كچھ وقت پاكى اور طہر ديكھے تو وہ غسل كرے " انتہى.
ديكھيں: مجلۃ البحوث العلميۃ ( 12 / 102 ).
الدم البحرانى: غليظ، اور ايك قول كے مطابق زيادہ خون كو كہتے ہيں.
ديكھيں: لسان العرب ( 4 / 46 ).
واللہ اعلم .