ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

سورج طلوع ہونے تك نماز فجر ميں تاخر كرنا

65941

تاریخ اشاعت : 16-08-2006

مشاہدات : 10300

سوال

نماز فجر ميں سورج نكلنے تك تاخير كرنے كا حكم كيا ہے، نہ كہ اس كے وقت ميں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نماز پنجگانہ كے اوقات مقرر اور محدد ہيں، اس وقت كى ابتدا اور انتہاء دونوں محدود ہيں جس ميں نماز ادا كرنا ضرورى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا مومنوں پر نماز مقررہ وقت ميں ادا كرنى فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).

يعنى اس كے وقت ميں ادا كرنى فرض ہے.

يہ آيت اس كى فرضيت پر دلالت كرتى ہے، اور يہ كہ نماز كے ليے وقت مقرر ہے، اگر وقت ميں نماز ادا نہ كى جائے تو نماز صحيح نہيں ہو گى، نماز پنجگانہ كے يہ اوقات ہر چھوٹے بڑے اور عالم و جاہل مسلمان كے ہاں معروف ہيں جو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے اخذ كيے ہيں:

" نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے " انتہى

ماخوذ از: تفسير السعدى صفحہ نمبر ( 103 ).

بغير كسى عذر كے نماز وقت ميں ادا نہ كرنا اور اس ميں تاخير كرنا كبيرہ گناہ شمار ہوتا ہے، اور پھر اللہ تعالى نے اس عمل پر وعيد سناتے ہوئے ارشاد فرمايا ہے:

ان نمازيوں كے ليے ہلاكت و تباہى ہے جو نماز ميں سستى كرتے ہيں الماعون ( 4 - 5 ).

عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

جو لوگ اسے وقت سے ليٹ كر كے ادا كرتے ہيں.

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 20 / 211 ).

دوم:

سوال نمبر ( 9940 ) كے جواب ميں نماز پنجگانہ كے اوقات تفصيل سے بيان ہو چكے ہيں اس كا مطالعہ كريں.

نماز فجر كا وقت طلوع فجر صادق سے ليكر طلوع آفتاب تك رہتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور صبح كى نماز كا وقت طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 612 ).

جب نماز اس وقت ميں ادا كى جائے تو يہ وقت ادا ہو گى، اس بنا پر سوال ميں جو يہ بيان ہوا ہے كہ طلوع آفتاب كے قريب اس كا وقت نہيں ہو گا، يہ بات صحيح نہيں، بلكہ صبح كى نماز كا وقت طلوع آفتاب تك جاتا ہے.

سوم:

ہو سكتا ہے سائل نے اس طرف اشارہ كيا ہو كہ بعض لوگ نماز فجر ميں تاخير كرتے ہيں تا كہ انہيں نماز فجر كا وقت شروع ہونے كا يقين ہو جائے، يا پھر ظن غالب ہو كہ فجر كا وقت ہو گيا ہے، اس كا سبب يہ ہے كہ بعض كلينڈروں اور نظام الاوقات ميں نماز فجر كے وقت كى تحديد ميں غلطياں پائى جاتى ہے.

ليكن يہ غلطى اس حد تك نہيں جاتى بلكہ بعض علماء كرام نے اس كا اندازہ بيس سے تيس منٹ تك لگايا ہے.

اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 26763 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

چہارم:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ مبارك يہ تھا كہ آپ دن كى روشنى شروع ہونے سے قبل نماز فجر ادا كر ليتے تھے اس كى دليل ميں چند احاديث پيش كى جاتى ہيں:

1 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صبح كى نماز اندھيرے ميں ادا كيا كرتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 560 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 646 ).

2 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صبح كى نماز اندھيرے ميں ادا فرماتے تو مومن عورتوں نماز ادا كر كے گھروں كو جاتى تو اندھيرے كى بنا پر پہچانى نہ جاتى تھيں، يا وہ ايك دوسرے كو پہچان نہيں سكتى تھيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 646 ).

" الغلس " رات كے آخرى حصہ كا اندھيرا.

جيسا كہ قاموس ميں ہے، يہ فجر كا اول وقت ہے. انتہى

ماخوذ از: سبل السلام.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اندھيرے كى بنا پر وہ پہچانى نہ جاتى تھيں " يہ رات كا باقى مانندہ اندھيرا ہے.

داودى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس كا معنى يہ ہے كہ: وہ پہچانى نہيں جاتى تھيں كہ وہ ان كى عورتيں ہيں يا مرد " انتہى

ماخوذ از: شرح مسلم للنووى

3 - مغيث بن سمى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما كے ساتھ صبح كى نماز اندھيرے ميں ادا كى، اور جب سلام پھرا تو ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے پاس گيا اور انہيں كہنے لگا:

يہ كونسى نماز ہے! انہوں نے فرمايا:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم، ابو بكر، عمر اور جب عثمان رضى اللہ تعالى عنہم كو خنجر مارے گئے تو ان كے ساتھ ہمارى يہى نماز تھى.

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 671 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ يہ احاديث اس كى دليل ہيں كہ رسول كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فجر كى نماز اول وقت ميں ادا كيا كرتے تھے.

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:

" اور صبح كى نماز اندھيرے ميں ادا كرنى افضل ہے، امام مالك، امام شافعى، اسحق رحمہم اللہ كا قول يہى ہے، اور ابو بكر, عمر، ابن مسعود، اور ابو موسى، ابن زبير، رضى اللہ تعالى عنہم، عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى عنہ سے يہى مروى ہے " انتہى

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب