الحمد للہ.
عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ حيض ختم ہونے كا يقين كرنے سے قبل غسل كرنے اور نماز و روزہ كى ادائيگى ميں جلد بازى سے كام نہ لے.
عورت كو علم ہے كہ سفيد مادہ نكلنے سے حيض ختم ہو جاتا ہے، اور يہ عورتوں كے ہاں معروف ہے جسے سفيد ٹكى اور سفيد مادہ كہتے ہيں، اور بعض عورتيں خون خشك ہونے پر پاك ہوتى ہيں.
لہذا عورت كو چاہيے كہ وہ پاكى كا يقين ہوئے بغير غسل نہ كرے.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
حيض شروع اور ختم ہونے كا باب، اور عورتيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس روئى والى تھيلى بھيجا كرتى تھيں جس پر زردى لگى ہوتى تو عائشہ رضى اللہ تعالى فرماتيں جلد بازى نہ كريں حتى كہ سفيد مادہ ديكھ لو، اس سے ان كى مراد حيض سے پاكى ہوتى تھى.
زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى كو پتہ چلا كہ عورتيں رات كو چراغ منگوا كر پاكى ديكھتى ہيں، تو انہوں نے كہا: عورتيں ايسا تو نہيں كيا كرتى تھيں، اور ان پر يہ عيب لگايا. انتہى
الدرجۃ: وہ تھيلى يا كپڑا جس ميں عورت يہ ديكھنے كے ليے روئى ركھتى كہ آيا حيض كا اثر باقى ہے يا نہيں.
الكرسف: روئى كو كہتے ہيں.
القصۃ البيضاء: يعنى روئى سفيد اور صاف نكلے اس ميں زردى نہ لگى ہوئى ہو.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" علماء كا اتفاق ہے كہ حيض كى ابتدا كا علم حيض كے امكان كے وقت زور سے خون آنے پر ہوتا ہے، اور حيض ختم ہونے ميں ان كا اختلاف ہے، ايك قول ہے كہ: خون ختم اور خشك ہونے سے معلوم ہوتا ہے، يعنى روئى خشك نكلے تو حيض ختم ہو گا.
اور ايك قول يہ ہے كہ: سفيد رنگ كا مادہ نكلنے سے، اور مصنف ـ يعنى امام بخارى رحمہ اللہ ـ بھى اسى قول كى طرف مائل ہيں.
اور اس ميں ہے كہ: سفيد مادہ حيض ختم ہونے كى علامت ہے اور اس سے طہر كى ابتدا ظاہر ہوتى ہے، اور خشك ہونے كے ساتھ حيض ختم ہونے كے قائلين پر اعتراض كيا گيا ہے كہ بعض اوقات دوران حيض بھى روئى خشك نكل آتى ہے تو يہ حيض ختم ہونے كى دليل نہيں، سفيد مادہ كے خلاف كيونكہ يہ وہ سفيد سائل مادہ ہے جو حيض ختم ہونے كے بعد رحم باہر نكالتا ہے.
امام مالك رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ميں نے عورتوں سے دريافت كيا تو يہ معاملہ ان كے ہاں معروف تھا، جسے وہ طہر كے وقت جانتى ہيں. انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 420 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
سوال: ؟
جب حائضہ عورت فجر سے قبل پاك ہو جائے اور فجر كے بعد غسل كيا جائے تو كيا حكم ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جب اسے طلوع فجر سے قبل طہر كا يقين ہو جائے تو اس كا روزہ صحيح ہے، اہم يہ ہے كہ اسے طہر كا يقين ہو، كيونكہ بعض عورتيں طہر كا گمان كرتى ہيں حالانكہ اسے ابھى طہر نہيں ہوتا، اور اسى ليے عورتيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس روئى لے كر آتى تھيں تا كہ وہ اسے طہر كى علامت ديكھائيں، تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا انہيں فرماتيں: جلد بازى نہ كرو حتى كہ تم سفيد مادہ ديكھ لو.
لہذا عورت كو چاہيے كہ وہ انتظار كرے حتى كہ اسے طہر كا يقين ہو جائے، اور جب وہ پاك ہو جائے تو روزے كى نيت كر لے چاہے ابھى اس نے غسل نہ بھى كيا ہو، اور طلوع فجر كے بعد غسل كر لے، ليكن اسے وقت ميں نماز كى ادائيگى كا خيال كرنا چاہيے لہذا وہ غسل جلد كرے تا كہ وقت ميں نماز ادا كر سكے.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 17 ) سوال نمبر ( 53 ).
اور يہاں سوال كرنے والى نے غسل اسے وقت ميں كيا جبكہ اسے حيض ختم ہونے كا يقين نہيں تھا، اور حقيقى طہر كا پتہ تو اسے بعد ميں علم ہوا جو كہ اس كے قول كے مطابق غروب آفتاب كے بعد ہے.
تو اس بنا پر سائلہ عورت نے جو كچھ كيا ہے وہ صحيح نہيں، اور اس دن اس كا روزہ صحيح نہيں ہے، اسے اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا ہو گا.
اللہ تعالى سے ہم اس كے ليے علم نافع اور عمل صالح كى توفيق كى دعا كرتے ہيں.
واللہ اعلم .