جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

سنگى لگوانے كى جگہوں كے متعلق سوال

66144

تاریخ اشاعت : 17-10-2005

مشاہدات : 8919

سوال

رمضان المبارك ميں سنگى لگوانے كا حكم كيا ہے؟ اور سنگى لگوانے والى جگہ كونسى ہيں ؟ اور ہر جگہ كى مرض بھى بيان كريں جس كا علاج كيا جاتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال نمبر ( 38023 ) ميں بيان ہو چكا ہے كہ سنگى لگوانے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اسى ليے روزہ دار كے ليے سنگى لگوانا جائز نہيں، ليكن اگر وہ مريض ہو اور اس كى ضرورت ہو تو سنگى لگوائے اور روزہ چھوڑ دے اور اس كى قضاء ميں روزہ ركھے.

دوم:

سنگى لگوانے كى جگہيں:

1 - امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے سر ميں درد كى بنا پر سر ميں سنگى لگوائى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2156 ).

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابن بجينۃ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مكہ كے راستے ميں احرام كى حالت ميں سر كے درميان سنگى لگوائى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1203 ).

2 - ابو داود اور ترمذى اور ابن ماجہ رحمہم اللہ تعالى نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دونوں طرف كى رگوں اور كندھوں كے درميان تين سنگياں لگوائيں "

ابو داود حديث نمبر ( 3860 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 390 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3483 ).

عون المعبود ميں ہے:

اہل لغت كہتے ہيں: الاخدعان گردن كى دونوں جانب رگيں جن ميں سنگى لگائى جاتى ہے، اور الكاہل: كندھوں كے درميان كمر كے شروع ميں ہے.

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" گردن كى دونوں جانب رگوں ميں سنگى لگوانے سے سر اور اس كے دوسرے اجزاء مثلا چہرہ، دانت، كان، آنكھ، ناك، حلق كے ليے فائدہ مند ہوتى ہے، جبكہ يہ بيمارى خون كے زيادہ يا خون كے فاسد ہونے يا دونوں سبب كى بنا پر ہو. انتہى

زاد المعاد ( 4 / 51 ).

3 - ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ نے اپنے سرين ( چوتڑ ) پر درد كى وجہ سے سنگى لگوائى "

ابو داود حديث نمبر ( 3863 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

الوثء: عضو كے ٹوٹے بغير جو درد ہو اسے الوثء كہا جاتا ہے، يعنى موچ وغيرہ.

4 - نسائى رحمہ اللہ تعالى نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے احرام كى حالت ميں پاؤں كے اوپر كى جانب موچ كى بنا پر سنگى لگوائى "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2849 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

سنت نبويہ ميں سنگى لگوانے كى يہ پانچ جگہيں ثابت ہيں: سر، گردن كى دونوں طرف كى رگيں، سرين، اور قدم كا اوپر والا حصہ.

اس كے علاوہ بھى سنگى لگانے كى جگہ ہيں جو سنگى لگانے كے ماہرين لوگ جانتے ہيں.

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ٹھوڑى كے نيچے سنگى لگانے سے دانت درد، اور حلقوم كى درد ميں فائدہ ہوتا ہے، جب اس كے وقت ميں استعمال كي جائے، اور سر اور دونوں جبڑوں سے بچا جائے.

اور پاؤں كے اوپر والےحصہ ميں سنگى لگوانا پنڈلى كى بڑى رگ كو پچھنا لگانے كے قائم مقام ( يہ ٹخنے كے قريب بڑى رگ ہے )، اور رانوں اور پنڈليوں كے پھوڑے اور انقطاع حيض، اور خصيتين كى خارش كے ليے نفع مند ہے.

اور سينے كے نچلے حصہ ميں سنگى لگانا ران كے پھوڑوں، اور اس كى خارش اور پھنسيوں، اور پاؤں كے جوڑوں كے آماس اور بواسير كے ليے مفيد ہے. انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 53 ).

اور سنگى كے ساتھ جن بيماريوں كا علاج كيا جاتا ہے، اور اس كے كونسى جگہ مناسب ہوتى ہے، اس كى تفصيل كے ليے سنگى لگانے والے ماہر لوگوں سے رابطہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب