جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

نشہ آور اشياء استعمال كرنے اور انہيں شراب كے حكم ميں شامل كرنے كا حكم

66227

تاریخ اشاعت : 25-07-2007

مشاہدات : 17140

سوال

اس وقت نشہ آور اور خاص كر حشيش اور بھنگ كا استعمال بہت زيادہ ہو چكا ہے، لوگ يہ سمجھتے ہيں كہ يہ خمر نہيں اور عقل ميں فتور پيدا نہيں كرتى ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا يہ بالفعل خمر ہے، يعنى نشہ آور ہے، اور كيا اگر آدمى اسے استعمال كرے تو اس كى نماز چاليس يوم تك قبول نہيں ہوتى ؟
اور رمضان المبارك ميں حشيش استعمال كرنے والے كے روزے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس ميں كوئى شك نہيں كہ نشہ آور اشياء حشيش، افيون، كوكين، مورفين وغيرہ كا استعمال كئى ايك وجوہات كى بنا پر حرام ہے، جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

1 - يہ اشياء عقل ميں فتور پيدا كرتى ہيں، اور جو چيز عقل ميں فتور پيدا كرے وہ حرام ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر نشہ آور چيز خمر ہے، اور ہر نشہ آور چيز حرام ہے، اور جس كسى نے بھى دنيا ميں شراب نوشى كى اور وہ شراب نوشى كرتے ہوئے توبہ كيے بغير ہى مر گيا تو وہ آخرت ميں شراب نہيں پئےگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2003 ).

اور بخارى و مسلم شريف ميں ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" مجھے اور معاذ بن جبل كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يمن كى طرف بھيجا تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے علاقے ميں جو كى شراب تيار كى جاتى ہے جسے مزر كا نام ديا جاتا ہے، اور شہد سے تيار كردہ شراب كو البتع كہا جاتا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر مسكر اور نشہ آور چيز حرام ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4087 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1733 ).

اور بخارى و مسلم ميں ہى ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے سنا وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے منبر پر يہ يہ فرما رہے تھے كہ:

" اما بعد: لوگو شراب كى حرمت نازل ہو چكى ہے، اور يہ شراب پانچ اشياء يعنى انگور، كھجور، اور شہد، اور گندم، اور جو سے تيار ہوتى ہے، اور خمر وہ ہے جو عقل ميں فتور پيدا كر دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4343 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3032 ).

اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ نشہ آور اشياء عقل ميں فتور پيدا كرتى اور اس پر پردہ ڈالتى ہے، اور اسے غائب كر ديتى ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ وسلم كے اس مطلق فرمان:

( ہر مسكر اور نشہ آور چيز حرام ہے ) سے ہر نشہ آور چيز كى حرمت پر استدلال كيا گيا ہے، چاہے وہ شراب نہ بھى ہو، تو اس ميں حشيش وغيرہ بھى شامل ہوگى.

امام نووى وغيرہ رحمہ اللہ تعالى نے بالجزم اور يقين كے ساتھ كہا ہے كہ يہ مسكر يعنى نشہ آور ہے، اور دوسرے نے يقين كے ساتھ اسے مخدر يعنى بےسدھ كر دينے والى قرار ديا ہے، كيونكہ مشاہدہ كيا گيا ہے كہ جو كچھ شراب نوشى سے لڑكھڑاہٹ اور مدہوشى وغيرہ ہوتى ہے وہ اس سے بھى حاصل ہوتى ہے.

اور اگر بالفرض يہ تسليم بھى كر ليا جائے كہ يہ نشہ آور نہيں تو ابو داود ميں " ہر مسكر اور مفتر چيز كى ممانعت كى روايت موجود ہے، واللہ تعالى اعلم " انتہى.

ماخوذ از فتح البارى ( 10 / 45 ).

خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہر وہ شراب مفتر ہے جو اعضاء ميں فتور اور ڈھيلا پن پيدا كر دے اور كنارے سن كردے، اور يہ چيز نشہ كى ابتدا ہوتى ہے، اور اسے پينے كى ممانعت اس ليے ہے تا كہ يہ نشہ كا ذريعہ نہ بن جائے.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور ہر وہ چيز جو عقل كو غائب كر دے تو وہ حرام ہے، چاہے اس سے نہ تو نشہ و مستى پيدا ہو، اور نہ لڑكھڑاہٹ، كيونكہ عقل كا غائب ہونا مسلمانوں كے اجماع سے حرام ہے، اور بھنگ كا استعمال جس سے نشہ نہ ہو اور نہ ہى عقل ميں فتور ہو اور عقل غائب نہ ہو تو اس ميں تعزير ہے.

محققين فقھاء كو يہ معلوم ہوا ہے كہ يہ ( يعنى حشيش اور بھنگ ) نشہ آور ہے، اور فاجر قسم كے لوگ ہى اسے استعمال كرتے ہيں، كيونكہ اس ميں نشہ و مستى اور جھومنا پايا جاتا ہے، تو اس طرح يہ نشہ آور شراب كو اس ميں جمع كرتى ہے، اور شراب نوشى حركت اور جھگڑا پيدا كرتى ہے، اور يہ فتور اور لذت لاتى ہے، اور اس كے ساتھ اس ميں مزاج و عقل ميں فساد و خرابى اور شہوت كا دروازہ كھلتا ہے، اور ديوثيت بھى پيدا كرتى ہے جو اسے شراب سے بھى زيادہ گندى اور شرير بنا ديتى ہے، بلكہ اس كى ايجاد تو تاتاريوں كے آنے سے ہوئى.

اور اس كى قليل يا كثير مقدار كے استعمال سے شراب كى حد ہى لگے گى جو كہ اسى يا چاليس كوڑے ہيں، اگر مسلمان شخص نشہ آور اشياء كى حرمت كا اعتقاد ركھتا ہو " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 3 / 423 ).

اور السياسۃ الشرعيۃ ميں درج ہے:

" انگور كے پتوں سے تيار كردہ بھنگ بھى حرام ہے، اسے نوش كرنے والے كو شراب نوشى كرنے والے كى طرح كوڑے مارے جائينگے، اور يہ شراب سے بھى زيادہ گندى ہے كہ يہ عقل اور مزاج دونوں كى خراب كر ديتى ہے، حتى كہ مرد ميں ہيجڑا پن اور ديوثيت پيدا ہو جاتى ہے، اور اس كے علاوہ بھى كئى ايك خرابياں پيدا ہوتى ہيں.

اور شراب اس اعتبار سے اس سے زيادہ گندى اور خراب ہے كہ يہ جھگڑا اور لڑائى كا باعث بنتى ہے، اور يہ دونوں اشياء ہى اللہ تعالى كے ذكر اور نماز كى ادائيگى سے روكتى ہيں، اور بعض متاخرين فقھاء نے اس كى حد ميں توقف اختيار كيا ہے، اور ان كى رائے يہ ہے كہ اسے كھانے والے كو حد سے كم تعزير لگائى جائيگى، اس وجہ سے كہ ان كا خيال ہے بغير لڑكھڑاہٹ كے عقل ميں تغير بھنگ كى جگہ ميں ہے، ليكن ہميں متقدم علماء كرام كى اس كے متعلق كوئى كلام نہيں ملى.

حالانكہ ايسا نہيں ہے بلكہ اسے كھانے والے كو نشہ و مستى آتى ہے، اور وہ شراب نوشى كرنے كى طرح اسے چاہتے اور طلب كرتے ہيں، بلكہ اس سے بھى زيادہ، اور جب زيادہ استعمال كريں تو يہ انہيں نماز اور اللہ تعالى كے ذكر سے روكتى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اس ميں اور بھى كئى ايك خرابياں مثلا ديوث پن، ہيجڑا پن، اور مزاج اور عقل ميں فساد و خرابى پيدا كرنا وغيرہ بھى پائى جاتى ہيں.

ليكن جب يہ چيز جامد ہے اور كھائى جاتى ہے نہ كہ پينے والى چيز تو اس ليے اس كى نجاست كے متعلق علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں امام احمد وغيرہ كے تين اقول ہيں:

ايك قول تو يہ ہے كہ: پى جانے والى شراب كى طرح يہ بھى نجس ہے، صحيح اور معتبر بھى يہى ہے.

اور دوسرا قول يہ ہے كہ: يہ نجس نہيں، كيونكہ يہ جامد ہے.

اور تيسرا قول يہ ہے كہ: اس كے جامد اور مائع ہونے ميں فرق كيا جائيگا.

چاہے حالت جو بھى ہو يہ لفظا يا معنا اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى حرام كردہ اشياء شراب اور نشہ آور اشياء ميں شامل ہوتى ہے.

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں دو قسم كى شراب كى متعلق فتوى ديں جو ہم يمن ميں بنايا كرتے تھے:

البتع جو كہ شہد سے تيار ہوتى ہے اس كا نبيذ بنايا جاتا ہے حتى كہ اس ميں جوش پيدا ہو جائے.

اور المزر جو مكى اور جو سے تيار ہوتى ہے حتى كہ اس ميں جوش پيدا ہو جائے.

راوى كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جوامع الكلم سے نوزا گيا تھا چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" ہر مسكر اور نشہ آور چيز حرام ہے "

متفق عليہ يہ حديث صحيحين كى ہے " انتہى.

ديكھيں:السياسۃ الشرعيۃ صفحہ نمبر ( 92 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

تو وہ بھنگ اور حشيش كھانے پر كس طرح مصر ہے، خاص كر اگر وہ اس ميں سے نشہ آور چيز كو حلال قرار دينے والا ہے، جيسا كہ لوگوں كا ايك گروہ ايسا كرتا ہے، تو اس طرح كے افراد كو توبہ كروائى جائے، اگر تو وہ توبہ كر لے تو ٹھيك وگرنہ اسے قتل كر ديا جائے، كيونكہ بالاجماع اس ميں سے نشہ آور حرام ہے، اور اسے حلال قرار دينا بغير كسى اختلاف كے كفر ہے " انتہى.

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 2 / 309 ).

2 - اس ميں بہت زيادہ نقصانات اور عظيم قسم كا ضرر پايا جاتا ہے جو كہ شراب نوشى كرنے سے بھى زيادہ بڑھ كر ہو سكتا ہے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" نہ تو كسى كو نقصان دو، اور نہ ہى نقصان اٹھاؤ "

مسند احمد اور سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2341 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

" تو اس ميں انسان كى ذاتى طور پر بھى نقصان ہوتا ہے، اور اس كے خاندان اور اولاد كو بھى نقصان پہنچتا ہے، اور اس كے معاشرے اور امت كو بھى نقصان ہے.

اس كا ذاتى اور شخصى نقصان يہ ہے كہ: اس كے جسم اور عقل پر گرانقدر اثرانداز ہوتى ہے؛ كيونكہ نشہ آور اور مستى والى چيز صحت اور اعصاب اور عقل و فكر اور مختلف دوسرے اعضاء اور نظام ہضم وغيرہ كو خراب اور ہلا كر ركھ ديتى ہے، اور اس كے علاوہ بھى كئى ايك خرابياں ہيں جو سارے بدن كو توڑ كر ركھ ديتى ہيں، بلكہ آدمى كے وقار اور انسانى عزت و كرامت كو ختم كر ديتى ہے، كيونكہ اس سے انسان كى شخصيت ہل كر رہ جاتى ہے، اور وہ استھزاء و مذاق كا نشانہ، اور مختلف قسم كے امراض كا شكار ہو كر رہ جاتا ہے.

اور خاندانى نقصان يہ ہے كہ: وہ نقصان يہ ہے كہ اس كى بيوى اور اولاد كو مختلف قسم كى خرابياں اور ضرر لاحق ہوتے ہيں، جس كى بنا پر گھر ناقابل برداشت جہنم سى بن كر رہ جاتا ہے، گھر ميں تعصب و ہيجان اور سب و شتم كا دور، اور طلاق اور حرام كلام، اور توڑ پھوڑ، اور بيوى بچوں كا خيال نہ كرنا، اور گھريلو اخراجات ميں كوتاہى جيسے كام جنم ليتے ہيں اور نشہ آور اور مست كردينے والى اشياء كے استعمال سے ايسى اولاد پيدا ہوتى ہے جو اپاہچ اور عقلى طور پر ناقص رہ جاتى ہے ....

اور عمومى نقصان يہ ہوتا ہے كہ: لمبا چوڑا مال اور دولت ضائع ہو جاتا ہے جس كا كوئى فائدہ تك نہيں ہوتا، اور مصلحت و ضروريات اور اعمال معطل ہو كر رہ جاتے ہيں، اور واجبات كى ادائيگى ميں كوتاہى ہوتى ہے، اور عمومى امانت كى ادائيگى ميں خلل پيدا ہوتا ہے، چاہے وہ ملكى مصلحت ہو يا كمپنيوں يا كارخانوں يا افراد اور شخصى مصلحت.

اس كے علاوہ جو اسے نشہ يا مستى سے اشخاص، اور اموال اور عزت كے خلاف جرائم كے ارتكاب كى طرف لے جاتا ہے، بلكہ مست كر دينے والى اشياء كے نقصانات تو نشہ آور اشياء سے بھى زيادہ خطرناك ہيں؛ كيونكہ مست كردينے والى اشياء تو اخلاقى قدر كو تباہ كر كے ركھ ديتى ہے " انتہى

ديكھيں: الفقہ الاسلامى و ادلتہ تاليف ڈاكٹر وھبۃ الرحيلى ( 7 / 5511 ).

حاصل يہ ہوا كہ: ان مخدرات يعنى مست كر دينے والى اشياء كى حرمت ميں كسى بھى عقل و دانش ركھنے والے شخص كو كوئى شك و شبہ نہيں ہونا چاہيے، كيونكہ نصوص اس كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں، اور اس ليے بھى كہ اس ميں بہت زيادہ نقصانات ہيں.

اور نشہ آور اور مست كر دينے والى اشياء استعمال كرنے كى سزا يہ ہے كہ: اسے شراب نوشى كرنے كى حد لگائى جائيگى، جيسا كہ حشيش اور بھنگ كے متعلق شيخ الاسلام رحمہ اللہ كى كلام ميں بيان ہو چكا ہے، تو مست كر دينے والى اشياء ان اشياء ميں داخل ہيں جو اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام كى ہيں وہ چاہے خمر اور مسكر لفظا ہو يا معنا.

اس ليے علماء اور مبلغين كو چاہيے كہ وہ لوگوں كے سامنے ان اشياء كے نقصانات اور اس كے خطرناك نتائج بيان كريں.

رہا آپ كا سوال شراب نوشى كرنے والے كى چاليس رور تك نماز كى عدم قبوليت اور اس كے روزے كے حكم كا جواب تو اس كے متعلق سوال نمبر ( 20037 ) اور ( 27143 ) كے جوابات ميں تفصيل بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كر ليں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب