جمعہ 8 ربیع الثانی 1446 - 11 اکتوبر 2024
اردو

مقتدى كا قرآن مجيد ديكھ كر امام كے پيچھے امام كى قرآت كے علاوہ قرآت كرنے كا حكم

66742

تاریخ اشاعت : 19-09-2007

مشاہدات : 5961

سوال

ميں نماز تراويح امام كى اقتدا ميں ادا كرتا ہوں، ليكن امام كى آمين كے بعد اور اپنى سورۃ فاتحہ پڑھنے كے بعد ميں اپنے ہاتھ ميں قرآن مجيد پكڑ كر امام كے كى بجائے اپنى خاص قرآت كرتا ہوں، اور پھر باقى سارى نماز ميں امام كى اقتدا ہوتى ہے، تو كيا ميرے ليے سورۃ فاتحہ كے بعد اپنى قرآت كرنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميں كسى اور جگہ سے پڑھ رہا ہوتا ہوں اور امام كہيں اور سے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہلى بات تو يہ ہے كہ مقتدى كے ليے سورۃ فاتحہ پڑھنے كے بعد امام كى قرآت سننے كے ليے خاموش رہنا واجب ہے، اور اس كے ليے سورۃ فاتحہ سے زيادہ پڑھنا جائز نہيں، چاہے وہ حفظ سے پڑھے، يا پھر قرآن مجيد ديكھ كر.

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے نمازيوں اور غير نمازيوں كو حكم ديا ہے كہ وہ جب ان كے سامنے قرآن مجيد كى تلاوت ہو رہى ہو تو وہ اسے خاموشى سے سنيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جب قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے تو تم اسے خاموشى كے ساتھ سنو اور چپ رہو تا كہ تم پر رحم كيا جائے الاعراف ( 204 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اسى طرح حكم ديا ہے، ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" امام تو اقتدا و پيروى كرنے كے ليے بنايا گيا ہے، تو جب وہ تكبير كہے تو تم بھى تكبير كہو، اور جب وہ قرآت كرے تو تم خاموش رہو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 404 ).

اور اس سے سورۃ فاتحہ ہى مستثنى ہے، اس كے علاوہ كچھ بھى مستثنى نہيں ہے.

عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ہم نماز فجر ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے نماز ادا كر رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قرآت كرنا شروع كى تو ان پر قرآت بوجھل ہونے لگى، اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:

" شائد تم اپنے امام كے پيچھے قرآت كرتے ہو ؟ "

تو ہم نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم جى ہاں ايسا ہى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايسا نہ كيا كرو، مگر فاتحہ الكتاب، كيونكہ جو شخص فاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 823 ) ابن باز رحمہ اللہ نے مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 221 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

مقتدى كے ليے جھرى نمازوں ميں سورۃ فاتحہ كے علاوہ كچھ اور قرآت كرنى جائز نہيں، بلكہ سورۃ فاتحہ كے بعد مقتدى كے ليے امام كى قرآت سننے كے ليے خاموش رہنا واجب ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" شائد تم اپنے امام كے پيچھے قرآت كرتے ہو ؟ "

تو صحابہ نے عرض كيا: جى ہاں .

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم فاتحۃ الكتاب كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو سورۃ فاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "

اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جب قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے تو تم اسے سنو، اور خاموش رہو تا كہ تم پر رحم كيا جائے .

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب امام قرآت كرے تو تم خاموش رہو "

سابقہ حديث كى بنا پر اس سے صرف سورۃ فاتحہ كو مستثنى كيا جائيگا، اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:

" جو سورۃ فاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "

متفق عليہ. انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 234 ).

دوم:

سوال نمبر ( 52876 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ: مقتدى كے ليے امام كے پيچھے قرآن نہيں اٹھانا چاہيے، ا سكا امام كے پيچھے قرآن مجيد اٹھا كر كھڑے ہونا خلاف سنت ہے، يہ تو اس صورت ميں ہے جب وہ امام كى قرآت كى متابعت كر رہا ہو.

ليكن اگر وہ قرآن اٹھا كر امام كى قرآت كى بجائے كہيں اور سے قرآت كر رہا ہو تو يہ بيان ہو چكا ہے كہ ايسا كرنا حرام ہے، كيونكہ مقتدى كے ليے جھرى نمازوں ميں سورۃ فاتحہ كے علاوہ كچھ اور پڑھنا جائز نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب