اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

نيند كى بنا پر رمضان المبارك ميں نماز كا وقت نكل جانے پر اس كے ذمہ كيا لازم آئے گا ؟

66900

تاریخ اشاعت : 10-02-2007

مشاہدات : 7201

سوال

رمضان المبارك كے موسم ميں ميں تھكاوٹ محسوس كرتا ہوں وہ اس طرح كہ جب سو جاؤں تو ميرى دو يا زيادہ نمازيں رہ جاتى ہيں، مجھے گناہ كا احساس ہوتا ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ:
اگر ميں ظہر اور عصر كى نماز سے سويا رہوں حتى كہ مغرب ہو جائے اور مغرب كا وقت بھى نكلنے كا خدشہ ہو تو كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نمازوں كى بروقت ادائيگى نہ كرنا اور وقت سے تاخير كرنا بہت بڑا جرم ہے اللہ تعالى نے اس پر شديد قسم كى وعيد بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:

ان كے بعد ايسے ناخلف پيدا ہوئے جنہوں نے نماز ضائع كر دى اور خواہشات كے پيچھے پڑ گئے انہيں عنقريب جہنم ميں ڈالا جائيگا مريم ( 59 ) .

غيا كا معنى كرتے ہوئے ابن عباس فرماتے ہيں: عظيم خسارہ حاصل ہو گا، اور قتاد نے اس كا معنى شر كرتے ہيں، اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: جہنم ميں ايك وادى كا نام ہے، جو بہت گہرى ہے اور اس كا كھانا خبيث ہے.

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 3 / 172 ).

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے كہا گيا:

اللہ تعالى نے قرآن مجيد ميں نماز كا بہت زيادہ ذكر فرمايا ہے:

وہ لوگ جو اپنى نمازيں ہميشہ ادا كرتے ہيں .

اور

وہ لوگ جو اپنى نمازوں كى پابندى كرتے ہيں .

اور:

ان نمازيوں كے ليے ہلاكت ہے جو نماز ميں سستى اور كاہلى كرتے ہيں .

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ديا:

يہ ـ يعنى يہ وعيد ـ اسے وقت پر ادا نہ كرنے كى بنا پر ہے.

لوگ كہنے لگے: اے ابو عبد الرحمن ہم تو سمجھتے رہے ہيں كہ يہ نماز ترك كرنے كى بنا پر وعيد ہو گى ؟

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: نماز ترك كرنا تو كفر ہے.

ديكھيں: تعظيم قدر الصلاۃ للمروزى ( 2 / 5 ) صاحب تحقيق نے اس كى سند حسن قرار دى ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز كے وقت سوئے رہنا عذاب قبر كے اسباب ميں سے ايك سبب قرار ديا ہے، اس عذاب كى ہولناكى اور شدت كے متعلق معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 46068 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، ہم اللہ تعالى سے عافيت طلب كرتے ہيں.

ذيل ميں ہم آپ كے ليے صحابى جليل عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى نصيحت پيش كرتے ہيں، وہ نماز جماعت كے حكم اور نماز ترك كرنے والے كى حالت، اور نماز كے ليے جانے والے كا اجروثواب، اور نماز جماعت كى ادائيگى كے ليے جانے سے معذور ہونے كے باوجود ادائيگى كے ليے جانے والے كى حالت تا كہ اسے ليجا كر صف ميں كھڑا كر ديا جائے، ان سب كے متعلق اس كلام ميں سبق پايا جاتا ہے:

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:

( جسے يہ بات اچھى لگتى ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو اسے يہ نمازيں وہاں ادا كرنے كا التزام كرنا چاہيے جہاں اذان ہوتى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تمہارى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سنن الھدى مشروع كيں، اور يہ سنن الھدى ميں سے ہيں، اگر اپنے گھر ميں پيچھے رہنے والے شخص كى طرح تم بھى اپنے گھروں ميں نماز ادا كرو تو تم نے اپنے نبى كى سنت كو ترك كر ديا، اور اگر تم اپنے نبى كى سنت ترك كرو گے تو تم گمراہ ہو جاؤ گے"

يہ تو اس شخص كے متعلق كہا جو بروقت نماز ادا كرے، ليكن مسجد ميں نماز باجماعت ادا نہيں كرتا، بلكہ اپنے گھر ميں ہى ادا كر لے، تو پھر جو شخص بالكل ہى نماز ادا نہيں كرتا حتى كہ نماز كا وقت ہى نكل جاتا ہے اس كى حالت كيا ہو گى !

پھر انہوں نے فرمايا:

" جو شخص بھى اچھى طرح وضوء كر كے ان مساجد ميں سے كسى ايك مسجد جائے تو ہر قدم كے بدلے اللہ تعالى ايك نيكى لكھتا اور ايك درجہ بلند كرتا، اور اس كى بنا پر ايك برائى كو مٹاتا ہے، ہم نے ديكھا كہ منافق جس كا نفاق معلوم ہوتا وہى اس سے پيچھے رہتا، ايك شخص كو لايا جاتا اور وہ دو آدميوں كے درميان سہارا لے كر آتا اور اسے صف ميں كھڑا كر ديا جاتا )

صحيح مسلم حديث نمبر ( 654 ).

مسلمان شخص كے شايان شان نہيں كہ وہ روزہ كو صرف رمضان المبارك كے مہينہ ميں ہى جانے، كيونكہ افضل ايام ميں روزہ ركھنا مستحب ہے، مثلا يوم عرفہ، اور يوم عاشوراء كا روزہ ركھنا، اور ہر ہفتہ ميں سوموار اور جمعرات كو روزہ ركھنا، اور ہر مہينہ ميں تين دن كے روزے ركھنے مستحب ہيں.

اس ليے اگر آپ سارا سال ان ايام كے روزے ركھنے كى عادى ہوں تو آپ كے ليے رمضان المبارك كے روزے ركھنا مشكل اور بھارى نہيں ہونگے كہ آپ سارا دن سوتے رہيں اور نمازيں ضائع كر بيٹھيں.

آپ كو چاہيے كہ آپ سونے سے قبل نماز كے ليے بيدار ہونے كے اسباب مہيا كريں، اور آپ كے ليے نيند كے عذر كى بنا پر جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنا جائز نہيں، حالانكہ آپ نمازوں كے اوقات ميں بيدار ہونے كى استطاعت بھى ركھتے ہيں.

آپ كو چاہيے كہ آپ روزے كى حالت ميں تھكاوٹ پيدا كرنے والا سبب تلاش كريں، اگر تو وہ سبب كام كاج ہے، تو آپ كام اور روزے كے مابين توازن قائم كريں، اور اگر آپ كام كے ليے مضطر نہ ہوں، اور روزے اور نماز اور باقى عبادات كام كاج كے ساتھ ادا نہيں كر سكتے تو آپ رمضان المبارك كے مہينہ ميں ملازمت سے رخصت لے ليں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 65803 ) اور ( 43772 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اور اگر ايسا شب بيدارى اور رات جاگنے كى بنا پر ہوتا ہے تو آپ كے ليے رات جاگنا حرام ہے جو آپ كى نمازوں كو ترك كا باعث بنتا ہے، حتى كہ نمازوں كا وقت ہى جاتا رہتا ہے.

آپ پر واجب ہے كہ اپنے قريب اور گھر والوں ميں سے بيوى اور بچوں كو وصيت كريں كہ نماز كے وقت وہ آپ كو بيدار كر ديں، اور ان پر بھى واجب ہے كہ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى ميں وہ آپ كى معاونت كريں، تا كہ آپ نمازيں بروقت ادا كر سكيں.

اور اگر بيدار ہونے كے سب اسباب اور وسائل مہيا كرنے كے بعد بھى آپ شديد تھكاوٹ يا پھر بيمارى كى بنا پر بيدار نہ ہو سكيں، اور دو نمازوں كا وقت نكل جائے تو آپ نمازيں اسى ترتيب كے ساتھ قضاء كر كےادا كريں، چنانچہ پہلے آپ ظہر كى نماز ادا كريں، اور پھر عصر كى... اسى ترتيب كے ساتھ.

ليكن اگر آپ كو خدشہ ہو كہ دوسرى نماز كا وقت بھى نكل جائيگا تو پہلے دوسرى نماز ادا كر ليں اور پھر پہلى، مثلا اگر آپ غروب آفتاب سے قبل بيدار ہوئے اور آپ نے ظہر اور عصر كى نماز ادا نہيں كى اور عصر كى نماز كے ليے وقت تنگ ہے كہ سورج غروب ہونے كے قريب ہے، تو آپ عصر كى نماز پہلے ادا كريں، اور پھر بعد ميں ظہر كى نماز ادا كر كے مغرب كى نماز ادا كر ليں.

اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ وہ اطاعت و فرمانبردارى اور اچھى و بہتر عبادت ميں آپ كى معاونت فرمائے، اور بھلائى وخير كے كاموں ميں آپ كى ہمت بلند كرے.

آپ سے گزارش ہے كہ آپ سوال نمبر ( 38158 ) اور ( 47123 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرورى كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب