اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

فرشتوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنا

سوال

کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں اس بات کا ذکر ہو کہ جب ابو لہب کی بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کی کوشش کی تو جنوں نے ان کی حفاظت کی تھی ؟
آپ سے گزارش ہے کہ اگر یہ صحیح ہے تو مجھے بتائیں اور کیا ابو لہب کی بیوی کے متعلق حدیث ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1- یہ ثابت کرنا کہ ابو لہب کی بیوی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت جن کرتا تھا دلیل کا محتاج ہے جو یہ کہتا ہے اس کی دلیل پیش کرنا پڑے گی –

اور ہو سکتا ہے کہ جس نے یہ کہا ہے اس پر معاملہ خلط ملط ہو گیا ہو کیونکہ جو ثابت ہے وہ یہ کہ اللہ تعالی کے حکم سےفرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابو لہب کی بیوی سے حفاظت کرتے تھے جیسے کہ ابھی ذکر کیا جائے گا ۔

2- اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

( اور اللہ تعالی تجھے لوگوں سے بچآئے ) اور اللہ تعالی کی حفاظت میں سے ہی ہے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور کیا جو کہ ان کی حفاظت اور بچاؤ کرتے اور اللہ تعالی نے ان فرشتوں کو ابو لہب کی بیوی کی آنکھوں سے اوجھل رکھا تو وہ انہیں دیکھ نہیں سکتی تھی اور اس کی دلیل ابن عباس کی روایت ہے ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ( ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں ) تو ابو لہب کی بیوی آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئےتھے اور ان کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ اے اللہ کے رسول اگر آپ تھوڑا سا سائیڈ پر ہو جائیں تا کہ آپ کو یہ تکلیف نہ دے سکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل کر دیا جائے گا تو وہ آئی اور آکر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہو کر کہنے لگی اے ابو بکر تیرے دوست نے ہماری ہجو کی ہے ؟ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے نہیں اس گھر کے رب کی قسم نہ تو وہ شعر کہتے ہیں اور نہ ہی وہ شعر بولتے ہیں تو وہ کہنے لگی بیشک تیری بات تو ٹھیک اور سچ ہے تو جب وہ چلی گئي تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے آپ کو اس نے نہیں دیکھا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت تک فرشتہ مجھے چھپاتا رہا جب تک وہ چلی نہیں گئي ۔

مسند البزار (1/ 68) اور اس کی سند کو حسن کہا ہے اور اسی طرح ابن جحر نے بھی اسے فتح الباری (8/ 958 ) میں حسن کہا ہے ۔

ب – اور وہ احادیث جن میں اس کا ذکر ہے اللہ اسے خیر سے محروم رکھے ۔

جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گۓ تو دو یا تین راتیں قیام نہ کر سکے تو ایک عورت آکر کہنے لگی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم شائد کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا ہے میں نے دو یا تین راتوں سے اسے تیرے قریب آتے نہیں دیکھا تو اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کر دیں :

( چاشت کے وقت کی قسم ہے اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا اور نہ ہی وہ بیزار ہو گیا ہے )

صحیح بخاری حدیث نمبر (4667) صحیح مسلم حدیث نمبر (1797)

حافظ ابن جحر کہتے ہیں کہ :

اس کا یہ قول ( ایک عورت آئی ) یہ ام جمیل بنت حرب جو کہ ابو لہب کی بیوی ہے اور اس کا بیان کتاب قیام اللیل میں گزر چکا ہے ۔ 1ھ فتح الباری (8/ 921)

فرشتوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالی کے حکم سے حفاظت کرنے کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ

ابو جہل کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ جسے مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو جہل نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بھی اپنے چہرے کو تمہارے درمیان خاک آلودہ (یعنی سجدہ کرتے جس طرح کہ وہ کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہیں- کرتے ہیں تو ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسے کہا گیا ہاں تو وہ کہنے لگا لات و عزی کی قسم اگر میں نے اب اسے ایسا کرتے ہوئےدیکھ لیا تو اس کی گردن کو روندھوں گا یا پھر اس کے چہرے کو خاک میں آلودہ کروں گا

تو ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے تو اس نے یہ ارادہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن کو روندھے اور اس پر پاؤں رکھے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اچانک انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ ایک دم الٹا واپس پلٹ رہا ہے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے بچاؤ کر رہا ہے ابو ہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ اسے کہا گیا تجھے کیا ہوا؟ تو وہ کہنے لگا کہ میرے اور اس کے درمیان ایک آگ سے بھری ہوئی خندق اور ہولناکی اور پر تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ میرے قریب آجاتا تو فرشتے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بوٹی بوٹی نوچ کر رکھ دیتے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کر دیں :

( سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اس لۓ کہ وہ اپنے آپ کو بے سمجھتا ہے یقینا لوٹنا تو تیرے رب ہی کی طرف ہے کیا تو نے اس کو بھی دیکھا ہے جو کہ بندے کو روکتا ہے جب کہ وہ بندہ نماز ادا کرتا ہے ذرا بتاؤ تو اگر وہ ہدایت پر ہو یا پرہیزگاری کا حکم دیتا تو بھلا بتاؤ تو اگر وہ جھٹلاتا ہو منہ پھیرتا ہو – یعنی ابو جہل – کیا اس نے یہ نہیں جانا کہ اللہ تعالی اسے خوب دیکھ رہا ہے یقینا اگر وہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ایسی پیشانی جو جھوٹی خطاکار ہے وہ اپنی مجلس والوں کو بلا لے – یعنی اپنی قوم کو – ہم بھی (دوزخ کے ) پیادوں کو بلا لیں گے خبردار اس کی ہرگز بات نہ ماننا ) القلم

صحیح مسلم حدیث نمبر (2797)

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد