ہفتہ 27 جمادی ثانیہ 1446 - 28 دسمبر 2024
اردو

زمين خريدى اور اس كى قيمت زيادہ ہونے كے انتظار ميں ہے تا كہ فروخت كر سكے تو كيا اس پر زكاۃ ہے ؟

67594

تاریخ اشاعت : 28-03-2006

مشاہدات : 5304

سوال

زمين اور مكانات كى قيمت ميں بہت زيادہ اضافہ كو مد نظر ركھتے ہوئے ميں مندرجہ ذيل كام كرنا چاہتا ہوں، اور ہو سكتا ہے يہ قيمت خيالى حد تك اتنى زيادہ ہو جائے كہ اكثر لوگوں كے ليے رہائشى مكان ہى خريدنا مشكل ہو جائے:
ميں بہت سستى اور ادھار زمين خريدوں گا: مثلا تيس ہزار ريال ميں ايك پلاٹ، اور دس بيس برس كے بعد حتى كہ اس كى تقريبا قيمت پانچ لاكھ ريال ہو جائے تو ميں ان ميں سے ايك پلاٹ فروخت كر كے اس كى قيمت سے دوسرے پلاٹ ميں مكان تعمير كرونگا، سوال يہ ہے كہ:
ہر ايك كى زكاۃ كس طرح ادا كى جائے گى ؟ اس ليے كہ ايك پلاٹ رہائش كے ليے ہے.... اور دوسرا پلاٹ جسے ميں نے ابھى گھيرا نہيں وہ مال ميں نمو اور زيادتى شمار ہو گا، ميں اسے بعينہ نہيں چاہتا بلكہ گھر تعمير كرنے كے ليے قيمت ميں اضافہ سے استفادہ كرنا چاہتا ہوں.
ميں نے ايك فتوى پڑھا ہے جس ميں ہے كہ بيس برس ميں ايك بار زكاۃ دينا ہو گى، اور دوسرے لوگوں سے سنا ہے كہ بيس برس ميں ہر برس كى تقريبا قيمت لگا كر ہر سال زكاۃ دينا ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صرف تجارتى زمين ميں زكاۃ ہے، اس ليے وہ زمين جس پر آپ نے گھر تعمير كرنا ہے اس پر زكاۃ نہيں، ليكن دوسرے پلاٹ ميں زكاۃ ہو گى.

اور زكاۃ كا حساب اس طرح ہو گا كہ ہر برس كے آخر ميں اس پلاٹ كى اندازا قيمت لگائى جائے اور اس قيمت سے اڑھائى فيصد زكاۃ نكال دى جائے.

اور ہر برس زكاۃ نكالنى واجب ہے، ان سب سالوں كى صرف ايك برس ہى زكاۃ نكالنا كافى نہيں ہو گى.

ايك چيز كى تنبيہ ضرورى ہے كہ جب تجارتى سامان آپ سونے يا چاندى يا نقدى ( ريال، يا ڈالر يا دوسرى كرنسى ) يا كسى اور سامان كے ساتھ خريديں؛ تو سامان كا سال اس مال اور قيمت كا سال ہو گا جس سے وہ چيز خريدى گئى ہے، تو اس بنا پر سامان كى خريدارى كے وقت سے كوئى نيا سال نہيں شروع ہو گا، بلكہ جس مال كے ساتھ وہ زمين خريدى گئى ہے اس كے سال كو ہى مكمل كيا جائے گا.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 32715 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ميرے پاس كچھ رقم ( مثلا پچاس ہزار ) ہے جس سے ميں نے زمين كا ايك پلاٹ خريدا ميرا يہ ذہن ہے كہ يہ پيسے بنك ميں پڑے رہنے سے بہتر ہے كہ اس سے زمين خريدى جائے اور يہ رقم محفوظ ہو جائے، اور جب مناسب وقت ہو يا مجھے رقم كى ضرروت پڑے تو ميں يہ زمين فروخت كر دوں، اور اس كى قيمت زيادہ ہو چكى ہو گى تو كيا اس پر زكاۃ ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" جس شخص نے بھى زمين خريدى يا وہ كسى عطيہ كى بنا پر مالك بنا يا اسے پلاٹ الاٹ كر ديا گيا اور اس كى نيت تجارت كى ہو تو جب اس پر سال مكمل ہو تو اس پر زكاۃ واجب ہو گى، اور وہ ہر برس زكاۃ واجب ہونے كے وقت اس كى قيمت لگوائے اور اس كى قيمت سے اڑھائى فيصد زكاۃ نكال دے "

ليكن اگر اس نے وہ زمين رہائش كى نيت سے خريدى تو اس ميں زكاۃ واجب نہيں ہو گى، ليكن جب وہ بعد ميں اس كى تجارت كى نيت كر لے تو اس تجارت كى نيت پر سال مكمل ہونے سے زكاۃ واجب ہو گى، اور اگر اس نے اجرت پر دينے كى نيت سے خريدى تو زكاۃ اس كى اجرت پر ہو گى اگر اجرت نصاب كو پہنچے اور اس پر سال مكمل ہو جائے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 339 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:

زمين وغيرہ كى زكاۃ كس طرح نكالى جائے گى ؟

اور كيا اسے فروخت كے وقت سب سالوں كى صرف ايك زكاۃ ہى كافى ہو گى ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جب زمين وغيرہ مثلا گھر اور گاڑى وغيرہ تجارت كے ليے تيار كى گئى ہو تو ہر برس اس پر سال مكمل ہونے كے وقت قيمت كے حساب سے زكاۃ نكالى جائے گى، اور اس ميں تاخير كرنى جائز نہيں، ليكن اگر مال نہ ہونے كى بنا پر وہ زكاۃ نكالنے سے معذور ہو تو اسے اسے فروخت كرنے تك كى مہلت دى جائے گى، اور فروخت كے بعد وہ ان سب برسوں كى زكاۃ ادا كرے گا، اور ہر برس پورا ہونے كے وقت كى قيمت كے حساب سے زكاۃ ادا كرنا ہو گى، چاہے اس كى قيمت قيمت خريد سے كم ہو يا زيادہ، ميرى مراد يہ ہے كہ جس قيمت سے اس نے گھر يا گاڑى يا زمين خريدى تھى.

جمہور اہل علم كے ہاں يہى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے تجارت كے ليے تيار كردہ چيز پر زكاۃ نكالنے كا حكم ديا ہے، اور اس ليے بھى كہ تجارتى اموال منافع حاصل كرنے كے ليے مختلف قسم كے سامان سے بدلے جاتے ہيں، اس ليے مسلمان شخص پر اس كى ہر برس زكاۃ نكالنا واجب ہے، جيسا كہ اگر اس كے پاس يہ رقم ہو " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 14 / 160 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب