الحمد للہ.
اول:
سنت نبويہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ جو شخص نماز جنازہ تك كسى ميت كے ساتھ رہے تو اسے ايك قيراط اور جو ميت كے دفن ہونے تك رہے اسے دو قيراط ثواب حاصل ہوتے ہيں.
بخارى اورمسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالىعنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو جنازہ ميں نماز جنازہ كى ادائيگى تك شريك رہتا ہے تو اسے ايك قيرط اور جو اسےدفن كرنے تك رہتا ہے اسے دو قيراط ملتے ہيں، صحابہ كرام نے عرض كيا: دو قيراط كيا ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دو بڑے اور عظيم پہاڑوں كى مثل "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1325 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 945 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت بيان كى ہے كہ وہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے پاس بيٹھے ہوئے تھے تو خباب رضى اللہ تعالى عنہ تشريف لائے اور كہنے لگے:
اے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كيا تم نے سنا كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے كيا كہا ہے!
انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا كہ:
" جو اپنے گھر سے جنازہ كے ساتھ گيا اور اس كى نماز جنازہ ادا كى اور پھر اس كے دفن كرنے تك اس كے ساتھ رہا تو اسے دو قيراط اجر وثواب حاصل ہو گا، ہر قيراط احد پہاڑ كى مثل ہے، اور جس نے اس كى نماز جنازہ ادا كى اور واپس پلٹ آيا اسے ايك قيراط احد پہاڑ كى مثل اجروثواب ملےگا "
تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے خباب رضى اللہ تعالى عنہ كو ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس بھيجا كہ وہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كے قول كے بارہ ميں دريافت كر كے آئيں، اور واپس آكر بتائيں كہ انہوں نے كيا جواب ديا ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے مسجد سے كنكريوں كى مٹھى بھر كر ہاتھ ميں الٹ پلٹ كرنا شروع كرديں، حتى كہ پيغام لے جانے والا واپس آيا اور كہنے لگا: كہ وہ كہتى ہيں كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سچ كہتے ہيں، تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنے ہاتھ ميں سے كنكرياں پھينك ديں اور فرمانے لگے:
ہم نے تو بہت سے قيراطوں ميں كوتاہى كر لى.
صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 945 ).
قيراط بہت بڑى مقدار ہے جس كى مثال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے احد پہاڑ كے ساتھ دى.
اور وہ قيراط جو نماز جنازہ سے حاصل ہوتا ہے آيا وہ صرف نماز جنازہ كى ادائيگى سے حاصل ہوتا ہے يا كہ گھر سے جنازہ كے ساتھ نلكنے كے ساتھ؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
مسلم كى خباب والى حديث ميں ہے كہ: " جو اس كے گھر سے جنازہ كے ساتھ نكلا "
اور احمد كى ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث ميں ہے:
" تو وہ اس كے گھر سے اس كے ساتھ چلا " تو اس كا تقاضہ يہ ہوا كہ قيراط اس كے ساتھ خاص ہے جو ابتداء سے ليكر نماز كى ادائيگى تك ساتھ رہا، اور اس كى تصريح محب طبرى رحمہ اللہ تعالى وغيرہ نے بھى كى ہے، اور جو مجھے ظاہر ہوتا ہے وہ يہ كہ صرف نماز جنازہ ادا كرنے والے كو بھى قيراط حاصل ہوتا ہے، كيونكہ نماز سے قبل جو كچھ بھى ہے وہ تو اس تك پہنچنے كا وسيلہ ہے، ليكن صرف نماز ادا كرنے والے كا قيراط جنازے كے ساتھ جانے والے اور نماز جنازہ ادا كرنے والے كے قيراط سے كم ہے.
اور مسلم شريف ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے اس لفظ كے ساتھ مروى ہے:
" ان دونوں ميں چھوٹا احد پہاڑ كے برابر ہے " يہ اس بات كى دليل ہے كہ قيراطوں ميں بھى فرق ہوتا ہے. انتھى
ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 234 ).
دوم:
ليكن جو شخص نماز جنازہ پڑھے بغير ہى جنازہ كے ساتھ جاتا ہے يا دفن كرنے كے وقت حاضر ہوتا ہے تو يہ اس وعدہ ميں شامل نہيں، ليكن اميد ركھى جاسكتى ہے كہ اس كى نيت كے مطابق اسے بھى ثواب حاصل ہو گا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
زين بن منير رحمہ اللہ تعالى كے قول كا ماحاصل يہ ہے:
جس نے نماز جنازہ ادا كى اور جنازہ كے ساتھ گيا، يا جنازہ كے ساتھ گيا اور دفن كرتے وقت موجود رہا تو قيراط اسے ہى ملےگا، نہ كہ اسے جو جنازہ كے ساتھ گيا اور نماز كے بغير آگيا؛ يہ اس ليے كہ جنازہ كے ساتھ جانا تو دو مقصدوں ميں سے ايك مقصد نماز جنازہ يا دفن كا وسيلہ ہے.
لھذا جب وسيلہ بےمقصد ہو جائے تو مقصد كا نتيجہ حاصل نہيں ہوتا، اور اگرچہ اميد ہے كہ ايسا كرنے والے كو اس كى نيت كے مطابق فضيلت حاصل ہوتى ہے" انتہى
ديكھيں فتح البارى ( 3 / 230 ).
سوم:
اور حديث كا ظاہر تو يہ ہے كہ قيراط دفن پر مرتب ہوتا ہے، اور يہ اس وقت تك نہيں ہوتا جب تك اس سے قبل نماز جنازہ ادا نہ كى جا چكى ہو.
بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت بيان كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى مسلمان شخص كا جنازہ ايمان اور اجروثواب كى نيت سے پڑھا اور اس كے دفن كے سے فارغ ہونے تك اس كے ساتھ رہا تو وہ دو قيراط اجر وثواب لے كر واپس پلٹتا ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 47 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ اس بات كا متقاضى ہے كہ يہ دو قيراط تو اسے حاصل ہونگے جو سارا راستہ جنازے كے ساتھ رہا اور دفن ہونے كے بعد واپس پلٹا، مثلا اگر وہ نماز جنازہ ادا كر كے اكيلا ہى قبر كى طرف چلا گيا اور دفن ميں بھى حاضر ہوا تو اسے صرف ايك قيراط ہى ملے گا. انتھى
ديكھيں: فتح البارى لابن حجر ( 3 / 234 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى بلوغ المرام كى كتاب الجنائز كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
حديث كے فوائد ميں يہ بھى شامل ہے كہ:
( يعنى جواب كے شروع ميں ذكر كى جانے والى ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كے فوائد )
دو قيراط صرف اسے حاصل ہوتے ہيں جو نماز جنازہ اور دفن دونوں ميں حاضر ہوتا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور جو جنازے ميں حاضر ہو حتى كہ اسے دفن كر ديا جائے"
كيونكہ يہ تو معلوم ہے كہ نماز جنازہ دفن كرنے سے پہلے ہوتى ہے.
اور اگر نماز جنازہ ادا كيے بغير دفن ميں حاضر ہو، مثلا ايك شخص قبرستان كے پاس سے گزرا تو لوگ ميت كو دفن كر رہے تھے تو وہ بھى دفن ميں حاضر ہو گيا، اور دفن كرنے ميں ان كے ساتھ شريك ہو گيا.
لھذا حديث ميں اس كى كوئى دليل نہيں كہ صرف دفن كى وجہ سے ايك قيراط حاصل ہو جاتا ہے، بلكہ دفن سے ايك قيراط تو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس كے ساتھ نماز جنازہ كى ادائيگى كى جائے، اور كسى دوسرى چيز كے ساتھ ملنے سے اجر ملنے سے يہ لازم نہيں آتا كہ انفرادى طور پر بھى يہ اجروثواب حاصل ہوتا" انتہى
ديكھيں: كيسٹ نمبر ( 6 ) دوسرى سائڈ.
حاصل يہ ہوا كہ جنازہ كے ساتھ جانے كے پانچ درجے اور مرتبے ہيں:
پہلا مرتبہ:
جنازہ گھر سے نكالنے سے ليكر نماز جنازہ كى ادائيگى اور دفن كرنےتك اس كے ساتھ رہے، يہ درجہ اور مرتبہ سب سے زيادہ كامل مرتبہ ہے، اوراس ميں دوعظيم قيراط اجروثواب ہے.
دوسرا مرتبہ:
جنازہ گھر سے نكلنے سے ليكر نماز جنازہ كى ادائيگى تك اس كے ساتھ رہنا، اس پر ايك قيراط ہے.
تيسرا مرتبہ:
نماز جنازہ ادا كرنا، اگرچہ اس كےساتھ گھر سے نہ نكلا ہو، تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كے مطابق اسے ايك قيراط ملے گا، ليكن يہ قيراط اس سے كم ہو گا جو جنازہ كے ساتھ گھر سے آيا اور نماز جنازہ ادا كى.
چوتھا مرتبہ:
نماز جنازہ كى ادائيگى كيے بغير صرف دفن ميں ہى حاضر ہو، تو حديث سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اسے قيراط نہيں ملے گا، اگرچہ اس كے عمل كے مطابق اسے ثواب ہے.
پانچواں مرتبہ:
كچھ دير جنازہ كے ساتھ رہے اور پھر واپس چلا جائے، نہ تو نماز جنازہ ادا كرے اور نہ ہى دفن ميں حاضر ہو، تو اميد ہے كہ اسے اس كى نيت كے مطابق اجروثواب حاصل ہوگا.
واللہ اعلم .