جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

سارا زيور صدقہ كرنے كى نذر مانى اور اس كے ذمہ زكاۃ بھى ہے تو كيا كرنا ہو گا ؟

67886

تاریخ اشاعت : 06-10-2010

مشاہدات : 4551

سوال

ايك عورت بيمار ہوئى تو اس نے نذر مانى كہ اگر اللہ تعالى نے اسے شفايابى سے نوازا تو وہ اپنا سارا زيور صدقہ كرے گى، اور شفايابى كے بعد نادم ہوئى! اب اس سوال ہے كہ:
كيا اس نذر كا كفارہ ہے؟ اور اگر يہ نذر لازما پورى كرنا ہو گى؛ تو اس زيور پر آٹھ برس كى زكاۃ واجب الادہ ہے؛ كيا وہ ان سب سالوں كى زكاۃ ادا كرے گى؟ اور كيا اسى زيور سے ادا كرنا ہو گى يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نذر ماننى مشروع نہيں ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا ہے؛ اس كى دليل عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى روايت كردہ حديث ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نذر ماننے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

" يہ كسى چيز كو واپس نہيں كرتى بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے "

متفق عليہ، يہ الفاظ بخارى شريف كے ہيں.

اس ليے ہر مسلمان مرد و عورت كو نذر سے دور ہى رہنا چاہيے، اور اپنے آپ پر ايسى چيز لازم نہيں كرنى چاہيے ہو سكتا ہے جسے پورا كرنے وہ عاجز آجائے اور وہ نذر پورى كرنى مشكل ہو اور پھر وہ گناہ اورحرج ميں پڑ جائے"

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 362 ).

باوجود اس كے كہ نذر ماننى اصلا مكروہ ہے، ليكن جس شخص نے كوئى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى نذر مانى تو اسے پورا كرنا لازم ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى نذر مانى تو وہ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور جس نے اللہ كى نافرمانى و معصيت كرنے كى نذر مانى تو وہ اس كى نافرمانى و معصيت نہ كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6202 ).

دوم:

مالى صدقہ كرنے كى نذر ماننا اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ہے جس كا پورا كرنا لازم ہے.

اور جس كسى نے بھى اپنا سارا زيور صدقہ كرنے كى نذر مانى ہو تو اس كى دو حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

يہ زيور ہى اس كا سارا مال اور پونجى ہو، تو اس زيور كا ايك تہائى حصہ صدقہ نكالنا كافى ہو گا، امام احمد رحمہ اللہ تعالى كا يہى مذہب ہے.

اور كچھ اہل علم نے سارا مال ہى صدقہ كرنا واجب قرار ديا ہے، جن ميں امام شافعى رحمہ اللہ تعالى شامل ہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جس شخص نے اپنا سارا مال صدقہ كرنے كى نذر مانى ہو تو اس كا ايك تہائى حصہ ادا كرنے سے ادا ہو جائے گا، امام زہرى اور امام مالك رحمہما اللہ تعالى كا يہى قول ہے.

اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: زكاۃ والا مال سارا صدقہ كرے گا...

اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

وہ اپنا سارا مال صدقہ كرے گا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى نذر مانى ہو تو وہ اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرے "

اور اس ليے بھى كہ وہ اطاعت كى نذر ہے، لہذا اسے پورا كرنا لازم ہے، مثلا نماز اور روزے كى نذر.

اور اس كا ايك تہائى حصہ صدقہ كرنے كى دليل يہ ہے كہ جب ابو لبابہ رضى اللہ تعالى نے كہا كہ ميرى توبہ ميں ہے كہ ميں اپنا سارا مال اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے راستے ميں صدقہ كرتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو لبابہ رضى اللہ تعالى كو فرمايا:

" تجھے ايك تہائى حصہ صدقہ كرنا ہى كافى ہو جائے "

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے مشكاۃ المصابيح حديث نمبر ( 3439 ) كى تخريج ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميرى توبہ ميں يہ بھى ہے كہ ميں اپنا سارا مال اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے صدقہ كرتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنا كچھ مال ركھ لو" متفق عليہ.

اور ابو داود كى روايت ميں ہے:

" تيرے ليے ايك تہائى حصہ ( كا صدقہ كرنا ) كافى ہو جائے گا "

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3319 ) ميں كہتے ہيں: اس كى سند صحيح ہے. انتہى.

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 11 / 340 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

معنى يہ ہوا كہ: اگر نذر مانى ہوئى معين چيز سارے مال كو اپنے اندر سمو لے تو اس كا حكم اس شخص كا حكم ہو گا جس نے اپنا سارا مال صدقہ كرنے كى نذر مانى ہو، تو اس كے ليے ايك تہائى حصہ صدقہ كرنا كافى ہوگا.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" سنت ميں ہے كہ جس شخص نے اپنا سارا مال صدقہ كرنے كى نذر مانى ہو اس كے ليے ايك تہائى حصہ صدقہ كرنا كافى ہو گا، كيونكہ سارا مال صدقہ كرنے ميں ضرر ہے"

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 6 / 188 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسى طرح " اعلام الموقعين ( 3 / 165 ) " ميں كہا ہے.

اور راجح وہى ہے جس كى طرف حنابلہ گئے ہيں، اور مستقل فتوى كميٹى " اللجنۃ الدائمۃ " كا فتوى بھى يہى ہے، كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

اگر كسى شخص نے ہميشہ اپنى سارى تنخواہ اللہ تعالى كے راستے ميں دينے كى نذر مانى تو اس كا حكم كيا ہے؟

كميٹى كا جواب تھا:

" آپ كے ليے تنخواہ كا ايك تہائى صدقہ كرنا كافى ہو گا، كيونكہ جس نے اپنا سارا مال صدقہ كرنے كى نذر مانى تھى اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:

" تجھ سے ايك تہائى حصہ كى ادائيگى كفائت كر جائے گى "

اسے ابو داود نے روايت كيا ہے. انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 23 / 225 ).

دوسرى حالت:

اس كے پاس زيور كے علاوہ اور بھى مال ہو، تو اس عورت پر اپنى نذر كے مطابق سارا زيور صدقہ كرنا لازم ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور جب كوئى شخص اپنے مال ميں سے كوئى معين يا مقدار مثلا ايك ہزار روپے صدقہ كرنے كى نذر مانے تو امام احمد سے روايت كيا جاتا ہے كہ: اس كا ايك تہائى دينا جائز ہے؛ كيونكہ اس نے مال صدقہ كرنے كى نذر مانى ہے، تو اسے كے ليے ايك تہائى صدقہ كرنا كفائت كر جائےگا، سارے مال كى طرح.

اور صحيح مذہب يہى ہے كہ وہ سارا ہى صدقہ كرے، كيونكہ اس نے وہ مال نذر مانا ہوا ہے، اور وہ فعل نيك و صالح اور اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے ہے، لہذا سب نذر والى اشياء كى طرح اسے بھى پورا كرنا لازم ہے، اور اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان كے عموم كى بنا پر بھى:

وہ نذروں كو پورا كرتے ہيں الانسان ( 7 ).

اختلاف تو سارے مال ميں ہے كيونكہ اس ميں حديث وارد ہے، اور اس ليے بھى كہ سارا مال صدقہ كرنے ميں ضرر لاحق ہوتا ہے، الا يہ كہ يہاں اگر نذر سارا مال ہى اپنے انذر سمو لے تو پھر اسى طرح ہو گا"

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 11 / 340 ).

سوم:

رہا مسئلہ زيور كى زكاۃ كا: تو اس كے آٹھ برسوں كى زكاۃ ادا كرنى ضرورى ہے، چاہے ( پچھلى تفصيل كے مطابق ) ہم سارا زيور صدقہ كرنے كا كہيں يا ايك تہائى دونوں حالتوں ميں اس كى زكاۃ ادا كرنا ضرورى ہے؛ كيونكہ زكاۃ اس پر ايك قرض اور واجب ہے، اور اس كا نذر كے ساتھ كوئى تعلق نہيں، ليكن اگر زيور كى زكاۃ سارا زيور ہى بن جائے تو پھر اسے زكاۃ كسى اور مال سے ادا كرنى چاہيے نہ كہ وہ زيور ہى زكاۃ ميں دے دے.

اور اگر اس پر زيور كا ايك تہائى حصہ صدقہ لازم آتا ہو تو اس كے ليے باقى زيور سے زكاۃ ادا كرنى جائز ہے ـ اگر زيور اس كے ليے كافى ہو ـ اور دوسرے مال سے بھى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب