جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

ظہر كے بعد طہر آ جائے تو كيا دن كا باقى حصہ روزہ ركھے گى ؟

68829

تاریخ اشاعت : 27-03-2007

مشاہدات : 5815

سوال

اگر عورت ظہر كى نماز كے بعد پاك صاف ہو اور رات روزے كى نيت نہ كى ہو تو كيا اس كے ليے روزہ ركھنا جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علماء كرام كا اتفاق ہے كہ حائضہ اور نفاس والى عورت كے ليے دوران حيض اور نفاس روزہ ركھنا جائز نہيں.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے كہ:

" فقھاء كرام متفق ہيں كہ حائضہ عورت كے مطلقا روزہ ركھنا حرام ہے چاہے فرضى ہو يا نفلى، اور اس كا ركھا ہوا روزہ صحيح نہيں؛ كيونكہ ابو سعدي خدرى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كيا ايسا نہيں كہ جب اسے حيض آتا ہے تو وہ نہ تو نماز ادا كرتى ہے اور نہ ہى روزہ ركھتى ہے ؟

ہم نے كہا كيوں نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اس كے دين كا نقصان يہى ہے "

چنانچہ جب عورت كو دن كے كسى بھى حصہ ميں حيض آ جائے تو اس كا روزہ فاسد ہو جائيگا، ابن جرير اور نووى وغيرہ نے اس پر اجماع نقل كيا ہے .... ..... اسى طرح علماء كرام كا اس پر اتفاق ہيں كہ اس پر رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء لازم ہے، كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا حيض كے متعلق فرماتى ہيں:

" ہميں حيض آتا تو ہميں روزوں كى قضاء كا حكم ديا جاتا، اور ہميں نماز كى قضاء كا حكم نہيں جاتا تھا "

امام ترمذى، اور ابن منذر، اور ابن جرير وغيرہ نے اس پر اجماع نقل كيا ہے " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 18 / 318 ).

اس سے يہ واضح ہوا كہ جس دن ميں حائضہ عورت پاك ہو اس دن ميں روزہ ركھنا صحيح نہيں، بلكہ اس پر رمضان كے بعد اس دن كى قضاء ہوگى.

پھر علماء كرام كا اس ميں اختلاف ہے كہ:

آيا عورت طہر كے بعد اس دن كا بقيہ حصہ بطور احترام كچھ كھا پى سكتى ہے يا نہيں ؟

اس ميں اہل علم كے دو قول ہيں: اور راجح قول مالكيہ اور شافعيہ كا ہے كہ ان دونوں پر دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے گزارنا واجب نہيں، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.

ديكھيں:الشرح الممتع ( 6 / 344 ).

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے كہ:

" فقھاء كرام كے ہاں اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ جب فجر كے بعد حيض كا خون بند ہو تو اسے اس دن كا روزہ كفائت نہيں كريگا، بلكہ اسے قضاء ميں روزہ ركھنا ہوگا، اور احناف اور حنابلہ كے ہاں اسے دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے بسركرنا ہوگا، ليكن مالكيہ كے ہاں مفطر اشياء استعمال كرنا جائز ہے، اور ان اشياء سے ركنا مستحب نہيں، اور شافعيہ كے ہاں اس كے ليے دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے اور مفطر اشياء استعمال نہ كرنا لازم نہيں " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 18 / 318 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب